بجٹ عارضی ہے، خاطر جمع رکھیے
Reading Time: 2 minutesبجٹ 2020-21 کا اعلان ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان آگیا، ایک طرف شدید حامی اور دوسری طرف شدید مخالف بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کے مورچوں پر فائرنگ شروع کر دی، کسی نے معروضی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی،ہمارے ہاں بجٹ بنیادی طور پر متوقع آمدن اور متوقع خرچ کا میزانیہ ہوتا ہے،پچھلے دو سال میں آمدن تیزی سے کم ہو رہی ہے لیکن خرچ بڑھ رہے ہیں،یعنی دونوں سروں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔
کچھ چیزوں پر بے جا تنقید ہے مثلاً معروضی حالات ایسے ہیں کہ جس میں دفاع کا بجٹ کم نہیں کیا جاسکتا تھا،اسے زیادہ سے زیادہ پچھلے بجٹ کی سطح پر منجمند کیا جاسکتا تھا،فسکل سپیس کہیں ہے ہی نہیں،معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے اس وقت ترقیاتی اخراجات میں زیادہ سے زیادہ پیسہ ڈالنے کی ضرورت تھی لیکن گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔
اب آپ خود سوچیں جب معیشت سکڑ رہی ہو اور ہر فرد پہلے کی نسبت غریب ہو رہا ہو تو وہ گاڑی کیسے خریدے گا یا پرانا ماڈل کیسے بدلے گا؟وہ نت نئے موبائل کے ماڈل کیسے خریدے گا،کون سی خاتون سفائر اور نشاط کی سیل کی لائن میں جا کر لگے گی؟اسے تو ریپلیکا ہی سے کام چلانا ہوگا تاکہ اس کے سوشل سرکل میں اس کی ناک نہ کٹ جائے،اب اگر تھوڑے سے ذہین لوگ حکومت میں ہوتے تو وہ BOT قسم کے پراجیکٹ لاتے،لاہور کا رنگ روڈ یا لاہور فیصل آباد موٹر وے بھی تو BOT پر ہی بنے تھے،مثلاً اگر کوئی کاروباری شخص ہوتا تو وہ کلر کہار کو ایک ریکریشنل علاقہ بنانے کے لئے کسی ولایتی کمپنی کو کہتا کہ یہ لیں چالیس ایکڑ جگہ،آپ یہاں ریسورٹ بنائیں،بچوں کے لئے جوائے لینڈ بنائیں اور ٹورازم کو پروموٹ کریں ہم آپ سے دس سال کوئی ٹیکس نہیں لیتے،صحارا ڈیزرٹ کی طرز پر کسی کمپنی کو قائل کرتے کہ بہاولپور اور سندھ کے صحراوُں میں انویسٹ کریں۔
جب میگا پراجیکٹس لگتے ہیں تو اس کا ٹرکل ڈاوُن ایفیکٹ آتا ہے، اسلام آباد میں اوور سیز پاکستانیوں کے لئے نیا سیکٹر کھولنا ایک اچھا قدم ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو یہ تاثر کیسے جائے کہ اس حکومت نے جسے قومی اسمبلی،سینیٹ یا عوام میں کہیں بھی اکثریت حاصل نہیں بلکہ یہ عسکریت کے زور پر کھڑی ہے باقی کی مدت پوری کرے گی؟اور اگر نہیں پوری کرے گی تو نئی حکومت بھی اس قدر بغض کی حامل نہیں ہوگی کہ اورنج ٹرین جیسے پراجیکٹ جس پر پیسہ لگ چکا ہے کو زیادہ سے زیادہ روکے رکھے۔
اس ملک میں معاشی میدان میں ایک طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے جسے تمام سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل ہو لیکن اس کے لئے جس طرح کی جذباتی ذہانت درکار ہے وہ عنقا ہے۔
حفیظ شیخ نے عین بجٹ والے دن ہی شاہزیب خانزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر کسی قسم کی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ کرونا کی وجہ سے تمام اندازے غلط ثابت ہوسکتے ہیں اور ان تمام تخمینوں کو دوبارہ بنایا جاسکتا ہے گویا یہ ایک عارضی بجٹ ہے نہ کہ ایک سال کا بجٹ۔