دنیا کب تک ہمیں قرض دے گی؟
Reading Time: 3 minutesایک صاحب نے جو عمومی طور پر بہت ریشنل انسان ہیں لیکن عمران خان سے ان کی محبت انہیں ریشنل نہیں رہنے دیتی نے پوسٹ شئیر کی کہ پوری دنیا کی معیشت کرونا کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے اور انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت میں ممکنہ گراوٹ کا ایک چارٹ بھی شئیر کیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پوری دنیا کی معیشت اس وقت گراوٹ کی طرف ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کی پرواز پہلے ہی سے نوز ڈائیو کی طرف رواں تھی بس اتنا ہوا ہے کہ جو زمین پچیس منٹ بعد آنی تھی وہ دس منٹ بعد آگئی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تمام ممالک کے پاس اپنی اپنی معیشت کو اس مشکل سے نکالنے کے قابل عمل حل موجود ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسی کوئی تحویز ہے ہی نہیں۔
لوگ نہایت ذوق و شوق سے ایک چارٹ شئیر کرتے نظر آ رہے ہیں جس میں تین ادوار میں لئے گئے قرضوں کا موازنہ ہے، صاف ظاہر ہے کہ ان تینوں ادوار میں سب سے پہلا دور زرداری صاحب کا ہے جس میں نسبتاً کم قرضے لئے گئے، دوسرا دور نواز شریف کا ہے جو دوسرے نمبر پر رہا اور تیسرا رواں دور ہے جس میں سب کچھ تاریخ میں پہلی دفعہ ہی ہو رہا ہے۔
چشم تصور میں لائیں کہ چوتھا دور جس کسی کا بھی ہوگا وہ اس سے بھی زیادہ مشکلات کا شکار ہوگا، اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ آمدنی بڑھانے کے امکانات پر کام ہی نہیں ہوا،جبکہ خرچ کم کیا ہی نہیں جا سکتا۔
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ پچھلے پچیس برس میں آمدنی بڑھانے اور خرچ کم کرنے کے کیا کیا مواقع آئے اور ان میں کیا رکاوٹیں آئیں۔
آمدنی بڑھانے کی تین سکیمیں آئیں
گوادر پورٹ
ریکوڈیک
سی پیک
خرچ کم کرنے کی سب سے بڑی کوششیں سٹیل مل، پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کی نجکاری کی ہوئیں۔
ان تمام کی راہ کی رکاوٹ کیا رہی؟
سیاسی ہم آہنگی کا نہ ہونا۔
گوادر میں بلوچوں کی مسلح مزاحمت اور امن و عامہ کی بری صورتحال کی وجہ سے یہ پراجیکٹ اپنے وقت سے آٹھ سال پیچھے ہے، اگرچہ وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم اسے چائنا کو آوُٹ سورس کر چکے لیکن سیاسی مسائل کو سیاسی انداز میں سلجھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاستدان ہرگز نہیں ہیں۔
ریکوڈیک کا معاہدہ پچھتر اور پچیس فیصد کی بنیاد پر ہوا جبکہ مروجہ طریق کار پچاس پچاس فیصد کا تھا لہذا عدلیہ کے ذریعے اس معاہدے سے جان چھڑائی گئی جبکہ اس کا سیاسی حل اسی کمپنی کے ساتھ مذاکرات تھے جو آپ دس سال گذرنے کے بعد آج بھی کر رہے ہیں،چونکہ آپ کے پاس نہ تو گیارہ ارب ڈالر جرمانہ بھرنے کے لئے موجود ہیں اور نہ ہی اتنے وسائل کہ آپ اس منصوبے پر خود سرمایہ کاری کر سکیں یعنی یہ منصوبہ دس سال تاخیر کا شکار ہے اور وجہ سیاسی سوچ کا نہ ہوسکنا ہے۔
سی پیک کے بارے میں اگرچہ پاکستان اور چائنا کی حکومتیں اگرچہ لب بستہ ہیں لیکن جاننے والے یہ بات جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس منصوبے کو اس طرز پر چلانے کی خواہاں ہرگز نہیں ہے جس طرز پر نون لیگ کی حکومت چلا رہی تھی اور اسے بار بار گیم چینجر بتلا رہی تھی۔
اپنے پہلے چینی دورے میں عمران خان حکومت نے چین سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ تمام ترقیاتی منصوبے ترک کر کے ان کی مدد سماجی شعبے میں کرے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ انکار کا ایک مہذب طریقہ تھا،پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے نواز شریف سے جو بڑے بڑے اختلافات تھے ان میں سی پیک سرفہرست تھا،بعد ازاں سی پیک سے متعلق معلومات آئی ایم ایف کو فراہم کرکے ہم نے اپنا کیمپ بدل لیا۔
کیا اس بہت بڑی تبدیلی کے کوئی مثبت اثرات آئے،کیا اس تبدیلی سے پہلے اس کے تمام سیاسی مضمرات کا جائزہ لے لیا گیا تھا؟یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب تین سال کے بعد ملے گا،لیکن بظاہر یہاں بھی سیاسی شعور کا شدید فقدان نظر آ رہا ہے کیونکہ اگر سی پیک سے متعلق کوئی خدشات پیش نظر تھے تو سب سے پہلا حق چین سے سیاسی مذاکرات کے ذریعے ان کو حل کیا جانا تھا۔
نجکاری جو کہ خرچ کم کرنے سے متعلق ایک اہم قدم ہوسکتی تھی اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی پوائنٹ سکورنگ رہی ہے اور اس وقت بھی پی پی پی سٹیل مل کی نجکاری کی مخالفت کر رہی ہے اور اس سے پہلے پی ٹی آئی ہر اہم موقع پر اڑ کر بیٹھ رہی ہے۔
بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسی بڑے سیاسی معاہدے کے بغیر اس ملک کا مزید چلنا اب ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
آمدن میں اضافے کے بغیر قرض ہی واحد حل رہے گا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ مشکل ہوتا جائے گا۔