کالم

سائنسی و قدرتی بالوں کے مقدمے اور قانونی کرشمے

جون 17, 2020 2 min

سائنسی و قدرتی بالوں کے مقدمے اور قانونی کرشمے

Reading Time: 2 minutes

شاہد بھٹی ایڈووکیٹ

دو ڈھائی برس پہلے بھی اثاثوں اور منی ٹریل وغیرہ کی بحثیں چلی تھیں۔ اپنے تیئں بہت کوشش کی تھی کہ due process اور equality before law کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے، لیکن کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ بہت سے دوست اس وقت بھی "موقع پر انصاف” کے خواہاں تھے اور ان میں سے کئی آج بھی "پولیس مقابلے“ اور "mob lynching” والے "انصاف” کے لیے بضد ہیں۔

انہی دنوں کی ایک کوشش آج پھر نظر آئی تو سوچا کیوں نہ ایک بار پھر آپ کی خدمت میں پیش کر دی جائے:

ایک مقدمہ میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ایک شخص (جس کے سر پر قدرتی بال موجود ہیں) کی جانب سے 1997 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے داخل کروائے گئے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن کو پیش کرنے کا حکم دیا جائے کیوں کہ الیکشن کمیشن یہ کہہ کر کہ وہ کاغذات ان کے پاس موجود ہی نہیں ان سے متعلق معلومات سائل کو مہیا کرنے سے انکاری ہے جبکہ قوی امکان ہے کہ اس شخص نے ان میں اپنے مکمل اثاثے ظاہر نہیں کیے۔ عدالت نے اس استدعا کو اس بنیاد پر رد کردیا کہ یہ استدعا زبانی تھی اور سائل کی تحریری درخواست (pleadings) میں اس کا تذکرہ نہ تھا۔

ایک اور مقدمہ میں ایک اور سائل کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ ایک اور شخص (جس کے سر پر سائنسی بال موجود ہیں) کو نااہل قرار دیا جائے کیونکہ اس نے ا، ب اور ج اثاثے ظاہر نہیں کیے۔

عدالت نے پورا مقدمہ سنا لیکن یہ بات ثابت نہ ہو سکی کہ متذکرہ شخص ان اثاثوں کا مالک یا ان کے حوالے سے قانونی طور پر قابل گرفت ہے لہذا فیصلہ ہوا کہ ان اثاثوں کہ جن کے الزام میں مقدمہ دائر ہوا اور اس شخص کے دیگر اثاثوں (کہ جن کا کسی درخواست میں ذکر نہیں اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی زبانی استدعا کی گئی) کا مکمل چھان بین کے ذریعے سراغ لگایا جائے۔ تفصیلی چھان بین کے نتیجہ میں ایک اثاثہ نما "د” کی دریافت ممکن ہوئی جسے لغات کے سہارے ایک مکمل اور صحتمند اثاثہ قرار دیے کر نااہلیت کی مہر ثبت کر دی گئی۔ صاحب سائنسی بال کی طرف سے نظر ثانی کی استدعا ہوئی کہ صاحب ایک تو "د” سرے سے اثاثہ ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو اس کا تذکرہ تو مقدمہ کی کسی تحریری درخواست میں یا کسی زبانی استدعا (averments) میں موجود ہی نہیں تھا تو جواب ملا کہ تفتیش میں جو سامنے آگیا نظر انداز کیسے کر سکتے تھے۔

ایک طرف استدعا کے باوجود اس بنیاد پر کہ تحریری درخواست میں ذکر نہیں تفتیش تو کجا ایک ادارے کو ایک کاغذ پیش کرنے کا حکم دینے میں بھی ہچکچاہٹ اور دوسری جانب ان اثاثوں کو بھی ڈھونڈ نکالنے کے لیے تفتیش کہ جن کا الزام سائل نے تحریری درخوست تو کجا زبانی بحث میں بھی نہ لگایا تھا اور پھر تفتیش بھی ایسی کہ اس نیک مقصد کے لیے من پسند ظاہری و خفیہ افراد، اختیار، وقت سرمایہ سب کچھ مہیا کیا گیا۔

سوچتا ہوں کہ عدالتی نظام کا ایک مقدمہ میں inquisitorial اور دوسرے میں adversarial روپ دھارنے میں کم از کم بالوں کے قدرتی یا سائنسی ہونے کا تو یقینانا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے