گلگت بلتستان انتخابی کھیل آخری مرحلے میں!
Reading Time: 5 minutesعبدالجبار ناصر
قسط اول
انتخابی تاریخ !
گلگت بلتستان میں سیاسی ارتقائی اور ترقیاتی عمل کا آغاز عملاً 1959ء میں ’’ولیج ایڈ ‘‘کے نام سے محدود ترقیاتی اسیکیموں اور محدود مشاورتی عمل سے ہوا ، جس کو 1962ء میں ’’بنیادی جمہوریت ‘‘ کانام دیا گیا ، مگر اس کو بعد میں محکمہ بلدیات میں تبدیل کیاگیا۔1969ء میں پہلی بار عملاً انتخابی عمل شروع ہوا اور مشاورتی کونسل کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا ۔ یہاں پر 12 راجگان کو بطور ممبر تسلیم کیا گیا ۔ گلگت بلتستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلا انتخاب دسمبر 1970ء میں 14 نشستوں کے لئے ہوا ۔ مشاورتی کونسل میں 7 نشستیں حکومتی نامزد افراد اور ’’ریزیڈنٹ ‘‘ کو کونسل کا چئیرمین رکھا ، اس طرح 22 رکنی کونسل بنی ۔کونسل کے پاس مشورے کا بھی بہت ہی محدود اختیار تھا، تاہم 1975ء تک پیپلزپارٹی کے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اختیارات میں کافی بہتری آئی اور باقاعدہ انتخابی قوانین بنائے گئے۔ نومبر 1975ء میں ’’ناردرن ایریاز کونسل ‘‘ کی 16 نشستوں کے لئے دوسرا، اکتوبر 1979ء میں تیسرا ، اکتوبر 1983ء کو چوتھا ، 11 نومبر 1987ء کو پانچواں اور نومبر 1991ء میں چھٹا انتخاب ہوا اور اس انتخاب میں خواتین دو نشستیں بھی مخصوص کردی گئی ، یوں کونسل 18 رکنی بنی ۔
جماعتی انتخابات !
پیپلزپارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور 1994ء میں قوانین میں مزید اصلاحات کرکے اختیارات میں مزید اضافہ کیاگیا، عام نشستوں کی تعداد 16 سے 24 کردی گئی اور خواتین کی نشستیں دو ہی رکھی گئی اور جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا فیصلہ کیاگیا۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر 25 اکتوبر 1994ء کو ساتواں انتخاب ہوا۔ 8 نشستوں کے ساتھ تحریک جعفریہ پاکستان پہلے ، 7 نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی دوسرے نمبر رہی اور پاکستان مسلم لیگ کو ایک نشست ملی ، جبکہ 8 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور پہلی سیاسی حکومت پیپلزپارٹی نے تحریک جعفریہ پاکستان کے ساتھ ملکر بنائی ،جس میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو پیپلزپارٹی کے پیر سید کرم علی شاہ اور 5 مشیر بنے۔ 3 نومبر 1999ء کو آٹھواں انتخاب ہوا ، 6 نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی پہلی ، 5 نشستوں کے ساتھ تحریک جعفریہ دوسری اور 4 نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ(ن) تیسری پوزیشن پر رہی ، جبکہ 9 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، مگر حکومت سازی کا عمل تقریباً 6 ماہ تک نہ ہوسکا،میں تجربے اور مشاہدے کی بنیاد کہتاہوں کہ یہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا شفاف ترین انتخاب تھا۔ سابق آمر پرویز مشرف کے دور جولائی 2000ء میں خواتین کی نشستیں 2 سے بڑھاکر 5 کردی گئی، اسپیکر کا عہدہ تخلیق کیاگیا اور کونسل کو ’’ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل ‘‘ کا درجہ دیکر 49 نکات پر قانونی سازی کا حق دیا گیا۔ حکومت سازی مسلم لیگ (ن) اور تحریک جعفریہ پاکستان نے کی اور فدامحمد ناشاد ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو اور مسلم لیگ(ن)کے حاجی صاحب خان پہلے اسپیکر بنے ۔نویں انتخابات 12 اکتوبر 2004ء کو ہوئے اور 11 نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی پہلے ، 3 نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ(ق) دوسرے اور 2 نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ(ن) تیسرے نمبر پر رہی ، جبکہ 8 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور تمام آزاد امیدوار مسلم لیگ(ق) میں شامل ہوئے ۔ خواتین کی نشستیں بھی 5 سے بڑھاکر 6 کردی گئی اور ٹیکنو کریٹ کی 6 نشستیں بھی پہلی بار شامل کی گئی، یوں کونسل 36 رکنی بنی ۔ خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کا طریقہ انتخاب ایسا رکھاگیا تھاکہ تمام نشستیں ق لیگ کے حصے میں آئی اور مسلم لیگ(ق)کے میر غضنفر علی خان ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو ، ملک محمد مسکین اسپیکر اور سید اسد زیدی ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ۔
صوبہ نما اور اسمبلی !
پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں 9 ستمبر 2009ء کو صدرپاکستان آصف علی زرداری نے اصلاحاتی پیکیج کا اعلان کیا ، جس کو ’’گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر 2009ء‘‘ کا نام دیکر صوبائی طرز(صوبہ نما) سیٹ آپ دیا گیا، اس میں ٹیکنو کریٹ نشستوں کی تعداد 6 سے کم کرکے 3 کردی گئی اور کونسل کو ’’گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ‘‘ کا درجہ دیاگیا، جبکہ 15 رکنی گلگت بلتستان کونسل الگ تشکیل دی گئی ۔ 12 نومبر 2009ء کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا پہلا اور مجموعی طور پر دسواں انتخاب ہوا ۔ 16 نشستیں لیکر پیپلزپارٹی پہلی پوزیشن میں رہی ،جبکہ مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ(ق) جمعیت علماء اسلام اور آزاد امیدواروں کو دودو نشستیں ملی ، ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی 9 نشستوں میں سے پیپلزپارٹی کو 6 ، جمعیت علماء اسلام کو 2 اور مسلم لیگ(ق) کو ایک نشست ملی ۔ پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیر اعلیٰ، وزیر بیگ اسپیکر اور جمیل احمد ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ۔ اسمبلی کا دوسرا اور مجموعی طور پر گیاریں انتخابات 8 جون 2015ء کو ہوئے اور 15 نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ(ن) سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ مجلس وحدت مسلیمن اور اسلامی تحریک کو دو دو ، جبکہ جمعیت علما؍ اسلام، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف ، بالاورستان نیشنل فرنٹ اور آزاد امیدوار وں کے حصے میں ایک ایک نشست آئی ۔ خواتین اور ٹیکنو کریٹ کی 9 نشستوں میں سے مسلم لیگ(ن) کو 7 ، جبکہ اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلیمن کے حصے میں ایک ایک نشست آئی۔ مسلم لیگ(ن) کے حافظ حفیظ الرحمان وزیراعلیٰ، فدا محمد ناشاد اسپیکر اور جعفر اللہ ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ۔ مسلم لیگ(ن)نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر نئے اصلاحاتی پیکیج کی تیاری 2015ء میں شروع کی جو کوشش تو آئینی عبوری صوبائی سیٹ آپ کی تھی مگر گلگت بلتستان متنازع ریاست جموں و کشمیر کا قانونی اور تاریخی حصہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکا ، تاہم اصلاحاتی پیکیج 2018ء دیا ، جس میں کئی اصلاحات کی گئی ہیں۔15 نومبر 2020ء کے انتخابات اسی پیکیج کے تحت ہورہے ہیں ۔
15 نومبر 2020ء کا انتخاب !
گلگت بلتستان اسمبلی کے تیسرے اور مجموعی طور پر بارویں انتخابات 15 نومبر 2020ء کو ہورہے ہیں ، انتخابی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں ۔ یہ الیکشن انتخابی اصلاحاتی ایکٹ 2017ء کے تحت ہو رہا ہے ۔ 15 نومبر کو 24 میں سے 23 نشستوں کے لئے پولنگ متوقع ہے ، جبکہ ایک نشست جی بی 3 گلگت 3 کا انتخاب تحریک انصاف کے صوبائی صدر جسٹس (ر)سید جعفر شاہ کے انتقال کے باعث ملتوی ہوئے اور اب یہ انتخاب 22 نومبر کو ہوگا۔ الیکشن کمیشن آف گلگت بلتستان کے مطابق ں 548 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور اب مقابلہ مختلف جماعتوں اور آزاد 320 امیدواروں کے مابین ہے ، باقی امیدوار دستبردار ہوئے یا کاغذات مسترد ہوگئے ہیں۔7 لاکھ 45 ہزار 361 ووٹرز ہے حق رائے دہی استعمال کریں گے ، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 5ہزار 363 جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 39 ہزار 998 ہے ۔پیپلزپارٹی نے 24، تحریک انصاف نے 22، مسلم لیگ(ن)نے 18اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنی منصوبہ بندی کے تحت امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ انتخابات کے لئے مجموعی طور پر 1234 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں ، جن میں سے 480 نارمل ، 415 انتہائی حساس اور 339 کو حساس قراردیا گیاہے۔ تقریباً 10 ہزار افراد کا انتخابی عملہ اور 10ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار تعینات ہونگے، جس کے لئے ملک بھر بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا سے بڑی تعداد میں پولیس لائی گئی ہے۔
(جاری ہے)