گلگت بلتستان: عوام نے عبوری صوبہ مسترد کردیا
Reading Time: 3 minutesتحریر: عبدالجبارناصر
گلگت بلتستان اسمبلی کی 24 جنرل نشستوں کے 15 نومبر 2020ء کو ہونے والے انتخابات میں گلگت بلتستان کے عوام ’’عبوری صوبہ ‘‘، ’’حق ملکیت و حق حاکمیت ‘‘ اور ’’معاشی ترقی ‘‘ کے نعروں اور اعلانات کو مسترد کرتے ہوئے ان ایشوز کے حوالے سے حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور حکومتی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے ’’عبوری صوبہ ‘‘ کے نعرے ، اعلانات ، مذہبی کارڈ اور بھرپور سرکاری وسائل کے استعمال کے باوجود تحریک انصاف 25 فیصد ووٹ بھی نہیں حاصل کرسکی ہے ۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے 15 نومبر 2020ءکو ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف نے ’’عبوری آئینی صوبہ بنانے ‘‘، پیپلزپارٹی نے ’’حق حاکمیت و حق ملکیت ‘‘ اور مسلم لیگ(ن) نے ’’معاشی ترقی ‘‘ کے نعرے کی بنیاد پر انتخابی عمل میں حصہ لیا اور بھرپور مہم چلائی ۔ یکم نومبر 2020ء کو گلگت بلتستان عبوری صوبہ بنانے کا اعلان وزیر اعظم عمران خان نے گلگت میں یوم آزادی کی تقریب میں کیا اور وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور اور دیگر نصف درجن وزراء اور مشیروں نے بھرپور مہم چلائی ، ترغیبی اعلانات کئے اور مذہبی کارڈ کا بھی خوب استعمال کیا۔
الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کے اعداد وشمار کے مطابق انتخابات میں 7 لاکھ 49ہزار 461 ووٹرز میں سے 4 لاکھ 46 ہزار 45 ووٹرز نے ووٹ کاسٹ کیا ، جو 61.10 فیصد ہے ۔ ایک لاکھ 12 ہزار 736 ووٹ (24.29 فیصد )کے ساتھ تحریک انصاف 10 نشستیں (41.66 فیصد)لیکر پہلے، 95ہزار 901 ووٹ(20.66فیصد ) اور 3 نشستیں (12.50 فیصد )حاصل کرکے پیپلزپارٹی دوسرے ، 47 ہزار 897 ووٹ (10.32 فیصد ) اور 2 نشستوں (8.33 فیصد)کے ساتھ مسلم لیگ(ن)تیسرے ، 12 ہزار 71 ووٹ (2.60 فیصد) بغیر کسی نشست کے مسلم لیگ(ق) چوتھے ، 11ہزار 807 ووٹ (2.54 فیصد)اور ایک نشست (4.16 فیصد)کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین پانچویں ، 10ہزار 419 ووٹ (2.24 فیصد )اور بغیر کسی نشست کے اسلامی تحریک پاکستان چھٹے اور9 ہزار 424 ووٹ (2.03 فیصد )اور ایک نشست (4.16 فیصد)کے ساتھ جمعیت علماء اسلام ساتویں نمبر پررہی ۔
عوامی وکرز پارٹی کو 2ہزار 629 ووٹ، جماعت اسلامی کو 2 ہزار 390 ووٹ ملے ، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، پاک سرزمین پاکستان ، آل پاکستان مسلم لیگ اور دیگر جماعتیں ایک ہزار ووٹ کی حد بھی عبور نہ کرسکیں ۔اسمبلی کی 7 نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئی اور آزاد امیدواروں (جیتنے اور ہارنے والے سب)کا مجموعیووٹ ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد رہا ، جبکہ 15ہزار 462 ووٹ مسترد ہوگئے ۔
انتظامی صوبہ بننے کے بعد پہلی بار جنرل نشستوں میں کسی جماعت کو سادہ اکثریت نہیں ملی ، تاہم 6 آزاد حیثیت میں کامیاب امیدواروں کی شمولیت اور 6 مخصوص نشستوں کے بعد تحریک انصاف دو تہائی اکثریت 22 نشستیں حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ 2009ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو تقریباً ایک لاکھ ووٹ (تقریباً 30 فیصد )اور 13 جنرل نشستیں اور 2015 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو ایک لاکھ 29 ہزار 526 ووٹ(34.17 فیصد )اور15 جنرل نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ 2015ء میں تحریک انصاف کو 42 ہزار814 ووٹ(11.30فیصد )اور ایک جنرل نشست اور مجلس وحدت مسلمین کو 39 ہزار 800 ووٹ(10.50 فیصد )اور دو جنرل نشستیں ملیں۔
گلگت بلتستان کے2020ء کے انتخابات میں تحریک انصاف اور مجلس وحدت مسلمین کا انتخابی اتحاد تھا اور دونوں کو مجموعی طور پر ایک لاکھ 24ہزار 543 ووٹ(26.83 فیصد )اور 11 جنرل نشستیں ملی ، جبکہ 2015ء میں دونوں جماعتوں کو 82 ہزار 641 ووٹ (21.80) ملے تھے اور 2020ء میں مرکز میں حکومت ہونے اور بھرپور سرکاری وسائل کے استعمال 41 ہزار 902 ووٹ (9 فیصد )کا اضافہ کرسکیں ہیں ۔ حالیہ الیکشن میں دونوں جماعتوں کا بھر پور نعرہ ’’گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ ‘‘ بنانا تھا اور عوام نے عملاً اس نعرے کو حق رائے دہی کے ذریعہ مسترد کردیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے 2 دسمبر 2020ء کو کابینہ کے ارکان کی تقریب حلف برداری سے خطاب میں ایک بار پھر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعادہ کرتے ہوئے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ انتخابات میں عبوری صوبے کا نعرہ مسترد ہونے کے بعد اولاً تو وفاقی حکومت کے پاس اس ایشوز پر اسی انداز میں بات یا عمل کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔ وفاقی حکومت پھر بھی پیش رفت کرنا چاہتی ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے اور پھر کوئی فیصلہ کرے ، تاکہ یہ فیصلہ کسی بھی مشکل سے محفوظ ، دیر پا اور قابل عمل ہو۔