کالم

سی پیک کے نام پر جرنیلی سے خبردار

دسمبر 9, 2020 4 min

سی پیک کے نام پر جرنیلی سے خبردار

Reading Time: 4 minutes

ایک تو پاکستانی جرنیلوں کا صابن اتنا سلو ہے کہ انہیں ہر بات سمجھنے میں سویلینز کے مقابلے میں پانچ سات سال اضافی درکار ہوتے ہیں۔ پھر بھی اس مضمون میں آپ کا خادم پوری کوشش کرے گا کہ بات انہیں سمجھ آ جائے۔

پوٹھوہار میں آج ہم اعوان، گکھڑ اور راجپوت یوں باہم شیر و شکر ہوئے رہتے ہیں کہ ایک سے دوسرے کا فرق جاننا محال ہے۔ باہر سے آنے والا کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ ہم نے صدیاں ایک دوسرے کے علاقوں پر شب خون مارتے، ایک دوسرے کی فصلوں کو آگ لگاتے، ایک دوسرے کے گلے کاٹتے گزاری ہیں۔ اس زمین پہ جو بھی آباد ہے وہ اپنے زور بازو سے اس پر قابض ہوا ہے۔ اور قابض ہونے کے بعد وہ اس زمیں کو اپنی ماں سمجھ لیتا ہے۔ جو ہماری ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے، اس کی ماں کی …..

ہمارے سجے پاسے (دائیں جانب) کے گوانڈی (پڑوسی) یعنی جہلم سے آگے سندھ تک جاٹ، راجپوت، آرائیں، گجر اور ان کی انگنت ذیلی شاخیں ماشاءاللہ نسل در نسل دشمنیوں کی درخشندہ روایات کی امین ہیں۔ یہ صرف بندہ مارنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، اس کے ٹوٹے نہر میں وگا دیتے تھے یا پھر ساگ میں پکا کر دشمن کے گھر ہانڈی بھجوا دیا کرتے تھے۔ وجہ؟ زمین جو ہمیں اپنی سگی ماؤں سے بھی پیاری ہے۔

ہمارے کھبے پاسے (بائیں جانب) یعنی اٹک سے آگے کے گوانڈی خیر سے پٹھان ہیں۔ انہیں لڑنے کو دشمن نہ ملے تو ہواؤں سے جنگ کرنے لگتے ہیں۔ وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ یہ ہوا میری زمین پر سے کیوں گزری؟ یا شریکے کی زمین میں کیوں گئی؟

دنیا چاند پر جائے یا مریخ پہ، سندھی بھائیوں کے ڈیش پر ٹھنڈ ہے۔ وہ تپتی لو میں گرم تھپیڑوں کے ساتھ آنے والی مٹی بھی ایسی عقیدت سے پونچھتے ہیں کہ اس زمین کی قسمت پر رشک آتا ہے جسے ایسے بیٹے نصیب ہوئے۔

بلوچ سے آپ نہ بھی مانگیں تو وہ خواہ مخواہ میں اپنی جان آپ کو دے دے گا، لیکن ذرا زمین مانگ کر دیکھیں۔ لودھیوں، مغلوں اور انگریزوں کو چین سے کبھی نہ سونے دیا، بندوق آپ کو بھی منجی کی بائی کے ساتھ رکھ کر سونا پڑتا ہے اور کھٹکا بھی ہو تو تراہ نکل جاتا ہے۔

یہ پاکستان ہے، یہ ہم ہیں۔ یہاں سیدوں، مخدوموں کو چھوڑ کر کسی کو بھی زمین خیرات میں نہیں ملی۔ جان دے کر اور جان لے کر ہم نے یہ دھرتی پائی ہے۔

ہم فاتح قبیلوں کی نسل ہیں، ہم جنگجو ہیں، ہماری رگوں میں دوڑتا خون آج بھی اسی طرح جوش مارتا ہے۔

ہم تعلیم، تہذیب، ادب اور فنون لطیفہ کی لسی پی پی کر اس خون کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پھر بھی ٹھنڈا نہ ہو تو سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دے کر عظمت رفتہ کی یاد تازہ کر لیتے ہیں۔

تو میری باوردی سرکار، میرے باجوہ جی، ایک مٹی کے مادھو کو ہمارے سروں پہ مسلط کر کے جب آپ اس سے یہ قانون بنواتے ہیں کہ ایک سی پیک نام کی اتھارٹی ہوگی جو عملاً آدھے بلوچستان اور بقیہ پاکستان کے ہر اس علاقے کی والی وارث ہوگی جہاں ہمارے گوانڈیوں نے سرمایہ لگا رکھا ہے۔

نیز اس اتھارٹی کے چیئرمین سے چپڑاسی تک کا ہر اقدام اس ملک کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا۔

نیز یہ اپنے زیرنگیں علاقوں میں ہر طرح کے محصولات اور آنیوں جانیوں کی واحد مجاز ہو گی۔

پھر آپ اسی پہ بس نہیں کرتے، آپ ایک قدم آگے بڑھ کر اسی مخبوط الحواس آدمی سے انگوٹھا لگوا کر ایک قانون اور بنواتے ہیں، جس کے تحت ایک جرنیل بصورت سروئیر جنرل ہم پہ حاکم ہو گا۔

یہ جہاں جھنڈا گاڑ دے گا، وہ جگہ حکومت پاکستان کی ملکیت قرار پائے گی۔
وہی زمین کے اصل مالکوں کو چار پیسے زرتلافی طے کرنے کا مجاز ہوگا اور اس کے اور اس کے منشیوں اور اردلیوں کے کسی اقدام کو کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔

اپنی ملکیت میں آنے والی جگہ کو فروخت کرنے، لیز یا کرائے پر چڑھانے یا کسی اور نفع بخش کام میں لانے کا وہ واحد مختار ہوگا۔

اور پھر اتنے پر بھی ہوس نہیں مٹتی، پھر آپ اسی نمونے کے کندھے پر بندوق رکھ کر ایک اور فائر مارتے ہیں جس کے تحت بنڈل اور اس کے قریبی جزائر ہزاروں برس سے آباد مچھیروں کی نہیں ایک غیرمرئی اتھارٹی کی ملکیت ہیں۔

اس اتھارٹی کا سربراہ ان کی خرید و فروخت، ان میں آمد و رفت اور اس امدورفت پہ محصول اکٹھا کرنے کا مجاز ہوگا۔ اور عوام نامی کیڑوں مکوڑوں کو اس کے کسی اقدام کو ملک کی کسی عدالت میں چیلنج کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

تو بصد احترام عرض ہے کہ اگر جناب والا ہماری قوم، ہمارے قبیلے، ہماری نسل اور ہمارے ہی خون سے تعلق رکھنے کے باوجود ہمیں سمجھ نہیں پائے تو فیر سرکار میری تواڈے امریکا تے برطانیہ توں کیتے وارکورسز تے ہزار واری چار حرف۔

صرف تین مہینے سرکار، صرف نوے دن اور آپ کی سی پیک اتھارٹی اپنے ہی چیئرمین کی عزت کی نعش تلے دبی ہوئی کراہ ہے۔

ابھی آپ خدا کا شکر ادا کریں کہ میاں، زرداری اور مولانا ابھی زندہ ہیں اور انہوں نے آگے بڑھ کر معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیے، ورنہ بنڈل آئی لینڈ پر ریزورٹ کے خواب دیکھتے دیکھتے پنوں عاقل کی چھاؤنی میں رہنا بھی محال ہو سکتا تھا۔

ایک سادہ سی، آسان سی حقیقت سرکار میری سمجھ لیں۔

ہم خود جھگیوں اور چھپروں میں رہتے ہیں اور آپ کو محلات بنا کر دے رکھے تو اس سے کسی بھی طرح یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ ہم مالک ہیں، ہم حاکم ہیں، زمین ہماری ہے اور آپ ہمارے چوکیدار ہیں۔

جو کچھ دے رکھا اسی پر اکتفا کریں، باقی ہر فصل کی کٹائی پر آپ کے گھر دانے اور کپڑے لتے ہمیشہ کی طرح بھجوائے جاتے رہیں گے۔

نیشنل یا انٹرنیشنل لیول پر آپ اپنی باقی سب کاروائیاں شوق سے جاری رکھیں۔ آپ کے ہر ایڈونچر کی قیمت ہم نے پہلے بھی اپنے خون سے چکائی ہے، آئندہ بھی چکاتے رہیں گے۔

رقبوں مربعوں کا شوق ہے تو ڈی ایچ اے والا لچ تلتے رہیں۔اور خدارا اپنی قوم کا مزاج اور فطرت سمجھنے کی کوشش کریں۔

آپ سے تو گورے زیادہ سیانے تھے۔ وہ اگر ہم سے دور بھاگتے تھے، چھاونیاں بنا کر ان میں محصور ہو کر رہتے تھے تو اس کے پیچھے کچھ وجوہات تھیں سرکار۔

گورے چلے گئے، وجوہات ادھر ہی ہیں۔

جب جب ہمارا چوکیدار ہم سے سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوانے کی کوشش کرے گا۔ اس کے ساتھ یہی کچھ ہوگا جو آج کل ہو رہا ہے۔

اب اگلے دو تین ماہ میں جو کچھ ہونے جا رہا اسے سکون سے، تحمل سے برداشت کریں اور اس سے کچھ سبق سیکھیں۔

اور آئندہ خبردار جو ہماری زمینوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے