کالم

موروثیت، تعلیم اور بلھے شاہ

دسمبر 9, 2020 2 min

موروثیت، تعلیم اور بلھے شاہ

Reading Time: 2 minutes

ڈاکٹر عزیر سرویا

دوستوں کے ساتھ مچھلی خوری کرنے قصور جانے کا پروگرام بنا۔ بابا بلھے شاہ کا مزار نواح میں تھا تو وہاں کا چکر بھی لگا لیا۔

وہاں ایک بزرگ محمد بخش کا کلام سنا رہے تھے۔ ”باپ مرے سر ننگا ہوندا ویر مرے کنڈ خالی- ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی- بھائی بھائیاں دے درد ونڈیندے- بھائی بھائیاں دیاں بانہواں- باپ سراں دے تاج محمد مانواں ٹھنڈیاں چھانواں“۔

ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ بہت اچھا گا رہا ہے۔ میں نے کہا کیوں نہ اچھا گائے، اس نے اپنے باپ کے ساتھ بچپن سے سیکھا، اس نے اپنے باپ کے ساتھ اور یوں پیڑھی در پیڑھی یہ معاملہ چلتا ہوا اس تک پہنچا۔ بالکل ویسے ہی جیسے دربار کے باہر بیٹھے اندرسّے اور فالودے والے نے اور مچھلی فروش نے باپ دادا کا کام سنبھالا ہو گا۔ جیسے دربار کے “مخدوم” نسل در نسل ٹرین ہو کے جیبیں خالی کرواتے ہیں، جیسے سیاست دانوں کے خون میں لیڈری دوڑتی ہے، جیسے فوجی یا بیوروکریٹ اپنے بچے کو بچپن ہی سے “گرُوم” کرتا ہے کہ گدی پر آنے کے قابل ہو۔۔۔

جس سماج کا ہم حصہ رہے، ادھر برہمن اونچے اور دلت آج بھی نیچے ہیں، ایک مندروں میں پوجا کرواتا ہے دوسرا مردہ جانوروں کو ہزاروں سال سے ٹھکانے لگاتا آ رہا ہے۔ پھر ہمارے یہاں تقریباً یہی نظام اپنی معاشی جہت میں پوری آب و تاب سے قائم آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پاپی پیٹ سب کو لگا ہوا ہے، پالنے کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔ بھوکا نہ مرنے اور اگلی نسل دنیا میں لا سکنے کی اگر کوئی گارنٹی ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہی کام کر لیا جائے جسے کرتے کرتے باپ دادا آپ کو پیدا کرنے کے قابل ہوئے، پھر ایک کام بچپن سے آپ کیے جائیں گے تو روشن امکان ہے کوئی وہ آپ سے بہتر کر پانے کی پوزیشن میں آئے گا نہ آپ سے مقابلہ کر سکے گا۔ یوں گانے والے کی نسلیں گاتی ہی جا رہی ہیں اور لوٹنے والوں کی لوٹتی ہی جا رہی ہیں۔

اس گورکھ دھندے کو تلپٹ کرنا، ایک نئے نظام کی تشکیل کرنا ان دانشوروں کے بس کا روگ نہیں جن کو موروثیت بس سیاست میں بری لگتی ہے۔ یہ لوگ سماج کی حرکیات سے اتنے ہی ناواقف ہیں جتنے خان صاب ملکی حالات سے (اگر ٹی وی یا پنکی بھابھی خان صاب کو نہ بتائیں)۔

قیمے والے نان یا بریانی کے طعنے یا خالی خولی پراپیگنڈے سماجی تبدیلی برپا نہیں کرتے۔ بلھے شاہ نے سید ہوتے ہوئے جب عنایت قادری آرائیں کو پیر مانا تو اس کی ”بھیناں تے بھرجائیاں“ اسے سمجھانے گئیں کہ ”چھڈ دے پلّا رائیاں“، جیسے آج ہمارے دانشور ہمیں سمجھا رہے ہیں۔ اس نے جواباً کہا تھا “بلھے، شوہ دی ذات کی پچھنا ایں“۔۔۔ یہ ذات و نسل نہ پوچھتے ہوئے میرٹ پر فیصلہ لینے کی صلاحیت کسی ویکیوم میں پروان نہیں چڑھتی۔ اس کا شعور تعلیم عام کرنے سے آتا ہے۔ یعنی جب انسانوں پر پیسا لگایا جاتا ہے تو سوشل موبیلیٹی کے مواقع بنتے ہیں، موروثیت کی نفی ہوتی ہے۔ جو کام دراصل کرنے خان صاحب آئے تھے (عوام کی تعلیم اور صحت پر انویسٹ کرنا)، اگر وہ کرنے پر زور دیا جائے تو شیرووں کی فوج کو آصفہ، بلاول اور مریم کے بیانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتارنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ لیکن یہ کام اوکھا ہے! خان بھی اپنی تمام تر ‘روحونیت’ سمیت بلھے سے شاید متفق ہے، ”میری بُکّل دے وِچ چور“۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے