کینٹین کے کاروبار سے ٹریجیڈی کنگ تک۔ دلیپ کمار کے 98 برس
Reading Time: 3 minutesشیراز شاہد
محمد یوسف خان (دلیپ کمار فلمی نام) گیارہ دسمبر 1922ء کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں لالہ غلام سرور خان اور عائشہ خان کے ہاں پیدا ہوئے۔
یوسف صاحب نے اپنے فلمی سفر کا آغاز سنہ 1944ء میں فلم جوار بھاٹا سے کیا، فلموں میں آنے سے قبل یوسف صاحب کینٹین کے کاروبار سے وابستہ تھے، وجہ والد کے کاروبار میں نقصان کے بعد گھر کو سپورٹ کرنا تھی اسی دوران اداکارہ اور بمبئی ٹاکیز کی مالکن دیویکا رانی کی نظر میں وہ آئے اور یوں یوسف خان سے دلیپ کمار بننے کا سفر شروع ہوا۔
فلم جوار بھاٹا کے ریلیز ہونے کے بعد دلیپ صاحب کے والد ان سے ناراض ہوگئے وجہ اس زمانے میں اداکاری کو ایک عزت دار پیشے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن دلیپ نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گے اور پھر 1946ء میں فلم ملن سے انہیں وہ پہچان ملی جس کے وہ حق دار تھے اور اس کے بعد اداکارہ نرگس کے ساتھ فلم میلہ کے بعد انہیں ‘ٹریجیڈی کنگ’ کا لقب ملا۔
میلہ کے بعد راج کپور کے ساتھ انداز، دیو آنند کے ساتھ انسانیت، سچترا سین کے ساتھ فلم دیوداس نے انہیں انڈین سینیما کا کنگ بنا دیا، ہر قسم کے کردار ادا کرنے کی صلاحیت نے انہیں دوسرے اداکاروں سے ممتاز بنایا، اسی دوران مسلسل ٹریجڈی کردار کرنے کی وجہ سے ان کی طبیعت پر گہرا اثر پڑا اور وہ ڈپریشن کا شکار ہوئے لیکن اسی دوران انہوں نے آزاد، کوہ نور اور اڑن کھٹولہ جیسی مزاحیہ اور ہلکی پھلکی فلموں نے انہیں اس ڈپریشن سے نکالا بلکہ بحیثیت اداکار ان کی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آئی اس کے بعد یہودی، مغل اعظم، گنگا جمنا، لیڈر، دل دیا درد لیا اور رام شیام جیسی فلموں نے ان کو نا صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں مشہور کیا ہالی وڈ ڈائریکٹر ڈیوڈ لین نے انہیں اپنی فلم لارنس آف عربیہ میں ایک کردار کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا وجہ کردار کا مرکزی کی بجائے معاون ہونا تھا۔
اداکار امیتابھ بچن نے ان کی فلم گنگا جمنا کے بارے میں کہا ہے کہ وہ آج بھی حیران ہوتے ہیں کہ کیسے پشاور کا ایک پٹھان بھوجپوری زبان کو اتنے اچھے طریقے سے کیسے بول پایا۔
عظیم ہدایت کار ستیا جیت رے نے انہیں الٹی میٹ میتھڈ ایکٹر کے خطاب سے نوازا اور انہیں ہندوستان میں میتھڈ ایکٹر کا بادشاہ بھی کہا۔
تین دہائیوں تک بالی وڈ پر راج کرنے والے دلیپ صاحب نے سنہ 1976ء سے 1981ء تک پانچ سال کے لئے فلموں سے بریک لیا اور اس کے بعد 1981ء میں منوج کمار کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم کرانتی سے واپسی کی اس کے بعد شکتی، ودہاتا، مشعل، دنجا، کرما، سوداگر اور قلعہ جیسی یادگار فلموں میں سپر ہٹ کردار ادا کئے۔
1944ء سے 1998ء تک اپنے چون سالہ فلمی کیریئر میں دلیپ صاحب نے محض ساٹھ فلموں میں کام کیا اس دوران انہوں نے ہر قسم کے کردار ادا کئے جو کہ ان کے ایک مکمل اداکار ہونے کا ثبوت ہیں۔
ان کی شاندار اداکاری پر انہیں آٹھ دفعہ فلم فئیر ایوارڈ دیا گیا اور سن 1993ء میں انہیں فلم فئیر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔
گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آج بھی ان کا نام سب سے زیادہ دفعہ بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کرنے والے انڈین اداکار کے طور پر درج ہے، اس کے علاوہ ہندوستان سرکار نے انہیں پدما شری، پدما بھوشن اور پدما وبھوشن ایوارڈز سے نوازا، حکومت پاکستان نے انہیں سن 1998ء میں پاکستان کے سب سے بڑے سویلین اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا، 1994ء میں انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا اس کے علاوہ دلیپ صاحب سن 2000ء سے 2006ء تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے۔
زاتی زندگی کی بات کریں تو دلیپ صاحب نے سن 1966ء میں اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی جو کہ آج تک قائم ہے اور اس کے علاوہ سن 1981ھ میں عاصمہ رحمان سے شادی کی جو کہ بعد میں سن 1983ء میں ٹوٹ گئی۔
دلیپ صاحب نے جہاں اپنے انداز اور اداکاری سے دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کیا وہیں بالی وڈ کے کئی لیجنڈز کو اداکار بننے پر انسپائر کیا جن میں امیتابھ بچن، منوج کمار، شاہ رخ خان اور اداکارہ ارونا ایرانی نمایاں نام ہیں۔
اداکار منوج کمار نے اپنا نام دلیپ صاحب کی ایک فلم کے کردار پر اپنا نام منوج رکھ لیا۔