اب تماشا ختم ہوگا
Reading Time: 2 minutesاپوزیشن جو جنگ لڑ رہی ہے وہ لمبی جنگ ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ پاکستان کے بنیادی ایشو کی بات کر رہی ہے، بہتر سال میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جو بات ڈرائینگ رومز میں ہوتی تھی سڑک پر آگئی ہے، اس ملک میں بہتر سال یہ فیصلہ نہیں ہوسکا تھا کہ حکومت کرنا عوامی نمائندوں کا حق ہے یا سرکاری ملازموں کا۔
ایک بات بہرحال طے شدہ ہے کہ جیسے درخت پر لگنے والا ہر وار اسے کمزور کر رہا ہوتا ہے ویسے ہی طاقت کا یہ مرکز ہر آنے والے دن کے ساتھ کمزور ہوگا، یہ چوکیاں ایک ایک کر کے ہی فتح ہوں گی۔
ابھی یہ منزل دور لگ رہی ہے لیکن آئے گی ضرور کیوں کہ یہ دنیا کا نارم ہے کوئی بھی اس نارم کو بائی پاس نہیں کر سکتا۔
یہ ہونی شدنی ہے۔
نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں ایک ایسا جرنیل جو پاکستان کی تمام سیاست کو کنٹرول کر رہا ہے اپنے مونہہ سے کہتا ہے کہ ایک نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور یہ بذات خود اس بات کا اعتراف ہے کہ محسوس کر لیا گیا ہے کہ اب کچھ دینا پڑے گا، کچھ چھوڑنا پڑے گا، یہ بہت بڑی فتح ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن کو بلوا کر وضاحت کی جاتی ہے کہ ہم نے عمران کو اقتدار کن وجوہات کی بنا پر دیا تو یہ بھی بہت بڑی فتح ہے، جب ایک سیکٹر کمانڈر کو جذباتی قرار دے کر داخل در دفتر کیا جاتا ہے تو یہ بھی ایک بہت بڑی فتح ہے۔
طاقتور اس وقت تک بات چیت نہیں کرتا جب تک اسے یہ محسوس نہ ہو کہ مُٹھی سے ریت پھسل رہی ہے، ساحل پر بنائے ہوئے نقوش ہر لہر کے ساتھ دھندلے ہو رہے ہیں۔
جو لوگ خوفزدہ کر رہے تھے کہ کریک ڈاون ہوگا اب چُپ ہوگئے ہیں، ایم این ایز اور ایم پی ایز دباوُ برداشت کر رہے ہیں ،لوگ نیب کی حراست میں سال سال گذار آئے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر ایک بار پھر یہ بازی کچھ پلٹ جائے لیکن بقول افتخار عارف
چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا