صحافی کیسے جیتا ، مرتا ہے
Reading Time: 4 minutesعابد خورشید
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
اور دوسری طرف اس قبا پر خوشیوں ،مسرت و انبساط کے برائے نام ٹانکے لگتے ہیں۔آج صحافی ساتھی طارق محمود ملک کی موت کی خبر سن کر شدید دھچکا لگا اور ذہن پندرہ سال پرانی رفاقت کی طرف گھوم گیا۔
چند دن قبل پارلیمانی رپورٹر ،اینکر ،کالم نگار ارشد وحید چوہدری کرونا کے باعث راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں چل بسے۔ اسی ہسپتال میں ایک دوسرے صحافی ساتھی امور خارجہ اور دفاعی امور کے رپورٹراور یونیورسٹی وزٹنگ پروفیسرطارق محمود کو بھی ہم سے ہمیشہ کیلے جدا کر دیا۔دونوں صحافی بے پناہ تعلقات اور اثر رسوخ کے باوجود ایک عام ہسپتال میں عام شہری کی طرح دن گزار کر دنیا سے چلے گئے۔
لفافہ صحافت کی اصطلاح تبدیلی کے ساتھ ہی زور و شور سےبمنظر عام پر آئ تھی لیکن شائد وہ آج نوحہ کناں ہو کہ کیا کیا الزام نہ دیے ایسے صحافیوں کو بھی جو کام کو عشق سمجھتے رہے یا عشق کو کام !ان کے پاس نہ تو اتنی گنجائش تھی کہ کسی اچھے ہسپتال جاتے ،کوئ ذاتی تعلق استعمال کیا نہ کسی اے ٹی ایم مشین کا سہارا لیا بس ایک عام ہسپتا ل جس میں جدید سہولیات تو درکنار اگر مناسب صفائ ،بنیادی آکسیجن اور آلات جراثیموں سے پاک مل جائیں تو بھی بڑی بات ہے کا رخ کیا ورنہ چند دن پہلے پشاور سرکاری ہسپتال میں آکسیجن کا ٹینڈر دو ہزار سترہ سے ختم ہونے کے باعث حال ہی میں سات شہری آکسیجن نہ ملنے کے باعث جان کی بازی ہار گئے تھی اور اس کی انکوائری جاری ہے۔سوچتا ہوں پارلیمنٹ اور دفاع دونوں ہی نا کام ہو گئے کیونکہ کمزور پارلیمنٹ دفاعی بجٹ میں توازن قائم کر کے صحت اور تعلیم پر خرچ کرنے کی پالیسیاں بنانے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور یہ اتنے مالدار بھی ہوتے ہیں کہ وہ بیرون ملک علاج کرا لیتے ہیں اس لیے سرکاری ہسپتالوں سے ان کا کیا لینا دینا جبکہ دوسری طرف دفاع والوں کا علاج معالجہ کا الگ تھلک اپنا ہی جہاں ہے کیونکہ وہ خواص ہوتے ہیں اور غریب صحافیوں جیسا عام شہری وہاں علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتا۔
دونوں صحافیوں کو نے یورنیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور کٹھن حالات میں محنت کر کے اپنا مقام بنایا ۔ایک صحافی کو حقیقی معنی میں معاشرے کی آنکھ اور کان کہا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صحافیوں کو جان کے خطرات ایک طرف ان کو روزگار کے خطرات نے ہمیشہ گھیرے رکھا ہوتا ہے۔کم تنخواہیں،تنخواہوں میں کئ کئ ماہ کی تاخیر،صحت اور زندگی کی انشورنس کی عدم فراہمی نے انہیں صحت کے مسائل نے ہمیشہ دو چار کیے رکھا ہوتا ہے اور اس کے ذمے دار حکومتیں ،ٹی وی چیلینز و اخباری مالکان اور صحافیوں کی یونینز برابر کی شریک ہیں جو صحافیوں کی تعزیت اور شہادتوں پر نمائشی دُکھی پیغامات اور کھوکھلے اعلانات کے سوا کچھنہیں کر سکتے۔اصل مسائل تو یہ ہیں کرونا تو محض بدنام ہوا ہے۔
چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ بکھیرے ،شرارتی آنکھیں سجائے ،متانت اور نفیس شخصیت ،دھیما لہجہ اور پر وقار
طارق محمود ملک کی تصویر آج سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے،صحافتی برادری نے فیس بک اور ٹویٹر پر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا اور اپنی اپنی یادداشتیں قلمبند کیں لیکن میں سوشل میڈیا پر زیادہ نہ لکھ سکا بس پرانی باتوں کو ایک ایک کر یاد کرتا رہ گیا۔
طارق ملک نے صحافت کا پہلے آغاز کر لیا تھا اور جلد ہی وہ روزنامہ جنگ راولپنڈی سے وابستہ ہو گئے۔میں دو ہزار چار میں اس وقت ایک نجی چینل میں مشقتی ٹرینی رپورٹر تھا جب ملک میں صرف دو ہی پرائیویٹ چینلز ہی تھے۔طارق ملک سے تعارف ہوا تو اس نے کشمیری اور ٹھیٹھ راولاکوٹی زبان بولنا شروع کی اور ازراہ نفنن کہا کہ وہ بھی کشمیری ہیں حالانکہ انہوں نے وہاں چند سال تعلیم کے سلسلے میں گزارے تھے۔بس تعلق بڑھتا رہا اور تھوڑے عرصے بعد وہ اے آر وائ چینل سے منسلک ہوگئے اور ہم اپنے اپنے چینل سے وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ ،اور اس سے جڑی اہم رپورٹنگ سفارتخانوں کی تقاریب سے مسلسل سولہ سال جڑے رہے ۔اے آر وائ پر انہوں نے الیکشن 2008کے لیے پروگرام شروع کیے اور خوب پذیرائی پائ۔بعد ازاں انہوں نے متعدد باد اپنے سینیرز صحافی ڈائریکٹر نیوز کے ساتھ معاملات کا ذکر کیا کہ وہ مجھے تنگ کرتے ہیں اور اسی کی پاداش میں ان کا چینل سے تعلق ختم ہو گیا۔نوکری ختم ہوئ بس اس کا سر راہ تذکرہ کھبی کبھار کیا لیکن مجال ہے کہ کوئ ذاتی خلش دل میں رکھی ہو اور پھر کھبی سالوں اسکااظہار نہیں کیا اور ان سینیرز کا ہمیشہ احترام بحال رکھا۔طارق ملک نےمختلف چینلز ،وقت ٹی وی،سما ٹی وی نیوز ون اور آخر میں ہم ٹی وی میں سینیر دفاعی اور امور خارجہ رپورٹر کی ذمہ داریاں نبھائ۔
دو ہزار تیرہ میں ،میں نے اپنے چینل پر الیکشن دو ہزار تیرہ پر کئ ماہ ایک پروگرام ہوسٹ کیا جس میں صحافیوں،ماہرین اور طلبا کو مدعو کیا جاتا تھا اور ماہرین کو قدرے بہترمعاوضہ دیا جاتا تھا ۔ان دنوں طارق نسبتا کم تنخواہ والے چینل سے وابستہ تھے بعد میں جب وہ تھوڑی بہتر تنخواہ کے ساتھ دوسرے چینل سے منسلک ہوئے ، ساتھی رپورٹرز کے سامنے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے بچوں کی فیس کی ادائیگی ان دنوں مشکل تھی آپ کے پروگرامز میں شرکت سے پریشانی ختم ہوئ تھی۔
یہ ہے ایک ایم فل صحافی،یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرر اور پاکستانی الیکڑانک میڈیا کی کہانی!دو سال قبل مجھے بتایا کہ صحافت تو بڑا کام ہے لیکن اس ملک میں بچوں اور فیملی کا معاشی تحفظ نا ممکن ہے اور وہ سنجیدگی سے امیگریشن پر سوچ رہے تھے۔
طارق ملک کے ساتھ دلچسپ تکرار رہتی جب کھبی دفتر خارجہ، اور سیمیناز میں گفتگو ہوتی اور وہ ہمیشہ پاکستان کا مثبت امیج پیش کرتے اور ملڑی اور دفتر خارجہ کی اسٹبلشمنٹ کیلے ذرا نرم گوشہ رکھتے تھے۔
ایک دفعہ مجھے ہنس کر بتایا کہ فیض آباد دھرنے میں تحریک لبیک کے مظاہرین میں رقم بانٹنے والے فوجی افسر کی فوٹیج اور خبر انہوں نے ہی چلائی تھی اور چینل والوں کو انہیں بھگتنا بھی پڑا تھا۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ہونے کی گواہی دیں گے
دل کرتا ہے کہ بہت لکھوں مگر طارق کی خوبصورت مسکراہٹ والی تصویر آنکھوں کے سامنے بار بار آ جاتی اور اس سے باتیں کرنے کو دل چاہتا ہے۔بس ایک فکر ہے کیا اس کا چینل،صحافتی تنظیم یا حکومت اس کے بچوں اور خاندان کا خیال رکھ سکتی ہے؟ مسکراہٹ والی تصویر آنکھوں کے سامنے سے کافور ہو جاتی ہے اور اب لکھا بھی نہیں جا رہا۔