بہادر بنیں، معاشرے کا مقابلہ کریں
Reading Time: 3 minutesرابعہ جمیل
مجھے کتابیں پسند ہیں ،میوزک اچھا لگتا ہے،گھومنا پھرنا،سفر کرنا یہ سب اچھا لگتاہے۔ زندگی کا پہلا سفر اکیلے کیا جب یونیورسٹی میں تھی۔ پہلا ہوائی سفر بھی اکیلے ہی کیا۔
ان سب کے لیے حوصلہ اور ہمت ابو اور بھائی نے دلائی۔ یونیورسٹی سے اسائمنٹ کے سلسلے میں اندرون سندھ ٹرپ کی اجازت بڑے بھائی نے دلائی ابو سے۔ لاہور پہلا فضائی سفر ابو کے حوصلہ دلانے پر کیا۔
مجھے ایڈوینچر پسند ہے، اپنے والد کے ساتھ بےشمار سفر کیَے پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی۔ ان کے ساتھ شاپنگ مالز ،سینما اور پکنگ ہرطرح سے زندگی کو انجوائے کیا۔ مرد و خواتین دوستوں کے ساتھ بےخوف و خطر کئے سفر کیے ،رات میں بھی اور دن کی روشنی میں بھی،اس دوران ذہن میں کہیں بھی ذرا برابر خوف کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
میں ذہنی طور پر خود کو آزاد اور بالغ محسوس کرتی ہوں۔لیکن میرا حلیہ ایک عام مڈل کلاس لڑکی کا ہی ہے جس کے سر پر اچھے سے دوپٹہ ہوتا ہے۔ ویسے ضروری نہیں کہ سر پر دوپٹہ آپ کے شرافت کی دلیل ہو،یہ تو بس ہمارے یہاں معاشرتی طور پر سر پر دوپٹے کو شرافت کا ضامن سمجھ لیا جاتاہے۔
فلمیں زیادہ تر انگریزی پسند ہیں ، ہندی فلمیں وہ پسند ہیں جس میں خاتون کو بہادر دکھایا جائے نہ کہ روتی دوتی۔ اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں کہ میں فیمنسٹ ہوں ، معاشرے میں خواتین کی اجارہ داری کو پسند کروں ،خواتین اپنے مرکز ،اپنے دائرے میں اچھی لگتی ہیں۔
مجھ میں ہمت حوصلہ،معاشرے کا سامنا کرنا یہ سب میرے گھر کے مردوں نے سکھایا۔ مجھے کسی بھی جھوٹ یا ہچکچاہٹ کے بغیر رہنا میرے گھر کے مردوں نے سکھایا ہے۔ میری اعلی تعلیم ،میرے ماسٹرز کی ڈگری میں بڑا ہاتھ میرے گھر کے مردوں کاہی رہا ہے۔میرے بھائی اور میرے والد میرے ساتھ ہر قدم پر رہے۔ میں کس حلیے میں کیسی لگ رہی ہوں ، یہ سب یہ معاشرہ ،یہاں کے لوگ، یہاں کے چند گنتی کے گھٹیا افراد نہیں بتائیں گے، میں مائی لگ رہی ہوں ،میں ماسی لگ رہی ہوں ،میں اولڈ اسکول آف فیشن لگوں۔ یہ سب دوسرے نہیں بتائیں گے۔
نہ میں کسی کی بکواس کی پروا کروں گی،میں کیا ہوں اور کیسی ڈریسنگ کروں گی ،یہ میں خود طے کروں گی،دوسرے نہیں۔ میں کس طرح خود کو رکھوں اور کیسے رہوں۔ یہ بھی میں طے کروں گی۔ اور نہ ہی آپ مجھے بتائیں گے کہ فیشن ایبل رہنا کیسا ہوتا ہے،مجھے کیسے ڈریسنگ کرنی ہے یا میں کس طرح دلکش و دلنشیں لگ سکتی ہوں۔
میں ماڈل نہیں ہوں، نہ ہی مجھے ایکٹنگ کرنی ہے نہ میں اداکارہ ہوں ،میں ایک عام لڑکی ہوں اور عام سی تنخواہ میں عام سی ملازمت کرتی ہوں۔ عام سی جگہوں پر رہنا، عام لوگوں میں رہنا،کھانا پینا ،اور عام رہنا پسند کرتی ہوں۔ میں موم بتی مافیا کی طرح ہراسمنٹ کا نعرہ لگا کر دیگر مردوں کو بدنام نہیں کروں گی۔
میرے ارد گرد سب ایک طرح کے نہیں۔ گنتی کے چند ہیں، جبکہ اچھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان ہی اچھوں نے مجھے کام سکھایاہے،ان ہی اچھوں نے بتایا ہے کہ اگر کوئی روکے ٹوکےتو ان کا سامنا کیسے کرنا ہے اور آپ جیسوں کو پارلیمانی زبان میں جواب کیسے دینا ہے۔ جواب بھی اس طرح دینا کہ لحاظ کا دامن ہاتھ سے نہ جائے۔ اس طرح کے لوگ عموما ذہنی طورپر بیمار ہوتے ہیں۔ خواتین کو ان کے حلیہ کے حوالےسے بتا کراپنی ذہنی تسکین کا سامان پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ کمزور خواتین تو شاید برداشت نہ کرپائیں ،لیکن یہی سب سے بڑی بات کہ کسی بھی صورت کمزور نہیں پڑنا نہ ہی کسی بھی صورت میدان چھوڑنا ہے۔
اس طرح کے لوگوں سے نمٹیں ان کے لئے میدان نہ کھلا چھوڑیں ،اور یہ سب آپ کو آپ کے اپنے ،آپ کے گھر کے اور ارد گرد بسے مرد ہی سکھاتے ہیں،آپ کی ہمت بنتے ہیں ،اور آپ کو بہادر بناتے ہیں ۔ آپ خواتین نے اگر ذرا بھی کمزوری دکھائی تو اس طرح کے گنتی کے مرد آپ کو نوچ کھائیں گے۔ پھر آپ اس معاشرے میں ایک المیہ ہی بن جائیں گی اور یہاں المیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں آپ کی داستان کو بہت سے لوگ مزے لے لے کر سنیں گے بھی اور آپ کو الٹے سیدھے مشورے دے کر آپ کو مزید الجھائیں گے، بجائے الجھنے کہ آپ خود کو بہادر بنائیں ،مقابلہ کریں ،اور ان گنتی کے نا آسودہ و ذہنی بیمار لوگوں کو بہتر انداز میں شٹ اپ کال دے کر آگے بڑھیں ،میدان آپ کا ہے۔
یاد رکھیں کہ ریپ صرف جسمانی نہیں، ذہنی طورپر بھی ہوتا ہے،اس کا جواب رو دھو کر اور ڈر کر نہیں بہادری سے دینا ہوتا ہے۔