اسٹیبلشمنٹ ڈٹی ہوئی ہے
Reading Time: 4 minutesنواز شریف نے جلسہ عام میں چیف اف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لیا تو اثاثے حرکت میں تو آئے لیکن بے نقاب بھی ہوئے ۔ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر نے سابق وزیراعظم کے موقف سے صرف اختلاف نہیں کیا یہ بھی ثابت کیا کہ سیاسی جماعتوں میں چوہدری نثار اور اعتزاز احسن ایسے دیگر ہتھیار بھی ہوتے ہیں جنہیں ضرورت کے وقت استمال کیا جاتا ہے ۔
مسلم لیگ ن کے بلوچستان کے سابق وزیراعلی نے بھی اختلاف کا کھلے عام اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اپنے قائد کے خلاف سخت زبان بھی استعمال کی اور شیخ رشید کی طرح نواز شریف کو غدار قرار دے ڈالا۔
پنجاب میں مسلم لیگ ن میں جو نقب لگائی گئی تھی اس میں پانچ دانے ہاتھ آئے تھے اور اب یہ دانے یتیم ہو چکے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ تمام محاذوں پر تندہی سے لڑ رہی ہے اور اپنے مورچوں میں ڈٹی ہوئی ہے ۔ پسپائی کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آتے ۔ جب کوئی جلسہ ہو اور اسٹیبلشمنٹ کو ہدف بنایا جائے اگلے دو تین روز میں اسٹیبلشمنٹ اپنی بقول نواز شریف "سوغات ” کو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کراتی ہے اور اپنے پختہ ارادے کا اظہار کرتی ہے کہ ڈیل تو ہم سے ہی کرنا پڑے گی ورنہ قوم کو سوغات کھانا پڑے گی۔
اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری ،میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو ڈیل پر رضامند کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ ان سیاستدانوں نے تو کیا قابو آنا تھا شہباز شریف تک قابو نہیں آئے ۔
اسٹیبلشمنٹ یا بعض عہدیداروں کے پختہ ارادے اور آخری سانس تک ڈٹے رہنے کے عزم کا اظہار جوابی حملوں سے بخوبی ہو رہا ہے ۔ایک طرف ن لیگ نشانے پر ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی ہدف ہے اور اب ایک تیسرا محاذ جمعیت علمائے اسلام کے خلاف کھول لیا ہے ۔
لاہور جلسے کے بعد افراتفری کا یہ عالم ہے کہ اسمبلیوں سے استعفوں کے باضابطہ اعلان کے بعد سینیٹ الیکشن وقت سے پہلے کرانے کا اعلان کیا گیا ۔بلاول بھٹو نے لاہور جلسہ میں متنبہ کیا کہ "پیغام بھیجنا بند کرو” جوابی کاروائی میں پختون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو کراچی میں درج ایف آئی آر پر گرفتار کر کے پیپلز پارٹی کو کمزور اور بے بس سیاسی جماعت ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ۔ سندھ حکومت بظاہر علی وزیر اور پختون تحفظ موومنٹ کے دیگر راہنماوں کی گرفتاری پر ردعمل نہیں دے رہی لیکن سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب نے آج بیان جاری کیا ہے کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی توڑنا وزیراعلی سندھ کا آئینی اختیار ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی نے پیغام دیا ہے کہ "ہم ڈٹے ہوئے ہیں ۔
اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ یا بعض عہدیداروں کے پختہ عزم کے باوجود ڈیل یا ڈھیل پر راضی نہیں اور نہ این آر او دینے کے لیے تیار ہے ۔ اپوزیشن اتحاد نے اعلان کیا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے 31 دسمبر کی بجائے پہلے دے دیے جائیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کا سب سے طاقتور حملہ مولانا فضل الرحمن پر ہوا ہے اور اس حملے میں ایک ایسا ہتھیار استمال کیا گیا ہے جس کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ "یہ بھی”۔
حافظ حسین احمد کو تو بہت پہلے زیرک مولانا فضل الرحمن نے اسٹیبلشمنٹ کا "پٹھو ” ہونے کے شک میں نکرے لگایا ہوا تھا ۔
کوئٹہ جلسے کے بعد اگر مسلم لیگ ن سے لیفٹینٹ جنرل ر عبدالقادر نے بغاوت کر کے نواز شریف کو ڈس کریڈٹ کرنے کی سعی کی تو جمعیت علمائے اسلام سے حافظ حسین احمد نے علم بغاوت بلند کر دیا تھا۔
اب جب آئندہ ہفتے اپوزیشن جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دینے جا رہی ہیں مولانا فضل الرحمن پر مولانا شیرانی کے زریعے مہلک حملہ کیا گیا ہے ۔میمنے پر حافظ حسین احمد نے حملے کی ابتدا کی تو میسرے پر جمعیت علما اسلام بلوچستان کا نظریاتی گروپ حملہ آور ہوا اور اب قلب پر مولانا شیرانی نے وار کیا ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ یا بعض عہدیداروں کو یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ وہ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ تمام اثاثے بغیر کسی کامیابی کے برباد ہو رہے ہیں یا "دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائیں ” کے خوف سے خود تباہ کئے جا رہے ہیں ۔ جج ارشد ملک ، مولانا خادم رضوی،حافظ سعید ،مولانا مسعود اظہر یا احسان اللہ احسان کلاسیکل مثالیں ہیں ۔جو اثاثے بچے ہوئے ہیں وہ غیر موثر ہو چکے ہیں ساتھ میں بونس کے طور پر اپنی رہی سہی عزت سے بھی محروم ہو گئے ہیں ۔اعتزاز احسن ،چوہدری نثار ،ستر فٹ کی حوروں والا مولوی طارق جمیل ،جنرل ر عبدالقادر اور پیپلز پارٹی سے توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کرائے گئے لوٹے اس کی روشن مثالیں ہیں۔
مولانا شیرانی نے جس طرح وزیراعظم کی تحسین کر کے مولوی طارق جمیل اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرح اسے صادق و امین قرار دیا ہے اور مولانا فضل الرحمن پر شدید تنقید کی ہے اسٹیبلشمنٹ نے اپنا یہ خفیہ ہتھیار بھی مولوی طارق جمیل کی طرح ضائع کر دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن اس مہلک حملے سے اسی طرح بچ نکلیں گے جس طرح نواز شریف اور آصف علی زرداری انتقامی کاروائیوں سے سیاسی طور پر مضبوط ہوئے ہیں ۔
اسٹیبلشمنٹ یا بعض عہدیداروں کے پاس اب صرف سائبر سیل یا اپنے خفیہ ہتھیار ہی بچے ہیں "جو اب خفیہ نہیں رہے” باقی معاشی تباہی کے ساتھ خارجہ اور داخلہ محاذوں پر مسلسل ناکامیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔