کالم

ریاست، سیاست اور ہزارہ کے کٹتے گلے

جنوری 7, 2021 4 min

ریاست، سیاست اور ہزارہ کے کٹتے گلے

Reading Time: 4 minutes

وقار حیدر

اس قدر شور کیوں ہے؟ صرف 11 افراد کے گلے ہی تو کاٹے گئے ہیں ، کوئی نئی بات کرو ، کون سی آفت آن پڑی ، اور ویسے بھی سب کے سب مزدورہی تو تھے ، نچلے درجہ کے لوگ تھے ، اور ویسے بھی یہ تو ہزارہ کے شیعہ تھے ان کے لیے کیا رونا کیا شور ڈالنا، یہ بدقسمت تو پیدا ہی دہشتگردی کا سامنا کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ یہ تو دہشتگردی کی جنگ میں پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں قربانی دے چکے ہیں۔

شاید ریاست کے منہ کو ان کا خون لگ گیا ہے اور ان کا خون بہت ہی سستاہے۔تقریبا دو دہائیوں سے یہ خون بہہ رہا ہے ، یہ دھرنا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے ، اور اس سردی میں ہزارہ والے بیٹھنے کے تو ویسے ہی عادی ہیں، جو لہو حرارت پیدا کرتا تھا وہ تو گلہ کٹنے کے ساتھ ہی بہہ گیا تھا اور پیچھے بچے یہ لاشے اور ان پر روتے ، پیٹتے ان کے بچے کھچے خاندان کے چند افراد ، کہیں گھر میں صرف بہنیں رہ گئی ہیں تو کہیں صرف بوڑھا باپ جو اپنے جوان سال مزدور بیٹے کی لاش پر بیٹھا ہے۔ اس کی آنکھیں خشک ہو چکی ہیں اور سانسیں اس سردی میں جم رہی ہیں۔

اور عجیب ہے وہ لڑکی جو کہتی ہے کہ ہمارے گھر میں کوئی مرد نہیں رہا ہم چھ بہنوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بھائی اور رشتہ داروں کے جنازے خود اُٹھائیں گی۔ حد نہیں ہوگی لڑکیوں کا کیا کام جنازے اٹھانے کا چوڑیاں پہنیں گھر میں بیٹھیں یہ جنازوں کا کام ریاست پر چھوڑ دیں۔ اور یہ ریاستی دہشتگردی تھوڑی ہے ۔ اس کو تو مذہبی جنونیت اور مذہبی انتہا پسند سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ ریاست تو ماں جیسی ہے دہشتگردی کے خلاف ہر بین الاقوامی فورم پر بولتی ہے واویلا کرتی ہے۔

کوئٹہ میں بیٹھے اس ہزارہ قیبلے کے دھرنے میں عجیب تحریروں کے بینرز ہیں ۔ مثال کے طور پر ایک تحریر لکھی ہوئی ہے (اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اور چیختے ہو کہ کشمیر بنے گا پاکستان) کیسے کلمات کا انتخاب کیا گیا ہے اپنے محافظوں کی ذمہ داری اور مستقبل کے لیے۔ اب یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ کشمیر کو پاکستان بنانے کے لیے ہزارہ کے شیعوں نسل کشی ختم کرنا ہوگی؟ اور رہی سہی کسر یہ سوشل میڈیا والے پوری کر دیتے ہیں۔ مطلب حد ہی ہو گئی۔ پوچھ رہے ہیں Where is State? کہ ریاست کہاں ہے؟ ارے بھائی ریاست تو ماں ہے یہ بات 1947 سے سمجھاتے آرہے ہیں لیکن یہ عوام کو آخر سمجھ کیوں نہیں آ رہی۔

وزیراعظم کی 11 جنوری 2013 والی ٹویٹ بھی دوبارہ سامنے لائی گئی۔ عمران خان نے اس وقت کوئٹہ میں جاری ہزارہ قبیلے کی نسل کشی کی نہ صرف مذمت کی تھی بلکہ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کا نام بھی لیا تھا اور ساتھ لکھاتھاکہ ریاست کہاں ہے ؟ حالانکہ وزیراعظم جو اس وقت ریاستی مشینری کے سربراہ ہیں انھوں نے بلوچستان کے مزدوروں کے قتل کو انسانیت سوز اور دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا کہ قاتل جلد گرفتار اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑے کیے جائیں گے اور حکومت متاثرہ خاندانوں کو بالکل تنہا نہیں چھوڑے گی۔ لیکن یہ سوشل میڈیا والے اس پر بھی خوش نہیں اس ٹویٹ پر بھی یہ شعر لکھ رہے

مقتل سے آ رہی ہے صدا اے امیرِ شہر
اِظہارِ غم نہ کر ، میرا قاتل تلاش کر

حالانکہ نئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید گذشتہ روز کہہ چکے ہیں کہ حکومت مچھ کے متاثرین کے 8 میں سے 7 مطالبات منظور کر چکی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ 7 کون سے مطالبات ہیں لیکن 8 مطالبہ جو منظور نہیں کیا گیا وہ بتا دیا وہ مطالبہ تھا صوبائی حکومت کے استعفوں کا جس پر وزیر داخلہ بولے کہ یہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔

ابھی چند دن تو ہوئے ہیں جناب شیخ رشید صاحب کو وزیر داخلہ بنے ہوئے ابھی تو انھوں نے کمان سنبھالی ہے اور آتے ہیں سب سے پہلے اسلام آباد کی شاہراہوں سے مورچے ختم کیے تاکہ عوام کو آسانی ہو ۔ اور ہوا یوں کہ ساری آسانی چوروں، رہزنوں اور قاتلوں کو فائدہ پہنچانے لگی اور اسلام آباد میں پے در پے ڈکیتی و قتل کے واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے

ایک بات اور سامنے آئی کہ بلوچستان بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے نوجوان کا گلہ بھی کاٹا گیا ہے وہ نوجوان بھی مزدوری کرتا تھا گھر والوں کا کفیل تھا اور ساتھ اپنی پڑھائی کے اخراجات بھی اٹھاتا تھا۔۔ خیر ہمارا موٹو تو دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا ہے تو اپنے بچوں کی خیر ہے۔ ہمارے محلے کا چوکیدار کہتا تھا کہ جاگدے رہنڑا، ساڈے تے نا رہنڑا مطلب (جاگتے رہنا ہم پر نہ رہنا) اور اگر کوئی جاگ جائے تو بھی کہیں کا نہیں رہتا۔ قوموں کو پہلے گلے کاٹ کر موت کی نیند سلایا جاتا ہے پھر انہیں جاگنے اور جگانے والوں کے خلاف اکسایا جاتا ہے۔

اب شیعہ تنظیمیں ملک بھر میں سراپا احتجاج ہیں اور ان کے احتجاجی دھرنوں سے جو نعرے لگ رہے وہ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں۔

یہ کس کا لہو یہ کون مرا، بدمعاش حکومت بول ذرا
تم کس کس کو مرواؤ گے ، یہ ساری قوم حسینی ہے

ویسے ہزارہ قیبیلے کے شیعوں کے قاتل پتہ نہیں گرفتار کیوں نہیں ہو پاتے حالانکہ بلوچستان سے تو روڈ کنارے مورچوں کو ختم نہیں کیا گیا ہے ؟

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے