تعلیم پر کورونا کے منفی اثرات: غیرمعمولی فیصلے کاوقت ہے
Reading Time: 4 minutesتحریر: زمر
alzumar000@gmail.com
ابتدائی تعلیم کے پہلے پانچ سے آٹھ سال بچے کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان برسوں میں بچہ نہ صر ف بنیادی تصورات ذہن نشین کرتا ہے بلکہ لکھنے پڑھنے کے عمل میں بھی مہارت حاصل کرتاہے۔یہ ایک ایسا جاری عمل ہوتاہے کہ کسی بھی وجہ سے چھوٹا سا وقفہ یا رکاوٹ بچے کی مجموعی کارکردگی کو متاثر کرسکتاہے۔ کرونا وائرس سے پھیلی وبا نے جہاں پوری دنیا میں ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، وہاں تعلیمی شعبے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے۔ اس کے نہ صرف دور رس منفی نتائج برآمد ہوں گے بلکہ ازالہ بھی مشکل سے ہی ہوگا۔
سکول بند ہونے کے بعد بچوں کے تعلیمی سال کو بچانے کے لئے پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی متبادل طریقوں مثلاً آن لائن پڑھائی، گھر میں پڑھائی اور ریکارڈ شدہ اسباق کو وٹس ایپ گروپس کے ذریعے طلبا تک پہنچانے وغیرہ سے تدریسی عمل جاری رکھنے کی کوشش کی گئی۔ وفاقی نظامت تعلیمات اور پی ٹی وی کے اشتراک سے ٹیلی سکول کا قیام بھی اس دوران بچوں کی مناسب رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوا۔ ان متبادل طریقوں سے بورڈ امتحانات دینے والی جماعتیں مثلاً میٹرک اور انٹرمیڈیٹ اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا زیادہ مستفید ہوئے۔پرائیویٹ سیکٹر میں قائم سکول بھی حتی المقدور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں۔ البتہ پبلک سیکٹر کے پرائمری اور ایلیمنٹری سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کا تدریسی و تعلیمی عمل بری طرح متاثر ہوا۔
یہی سکول ہیں، جو ملک کے غریب اور متوسط طبقہ کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں۔پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس 2016-17 کے مطابق ملک میں کل پرائمری سکول تقریباً ڈیڑھ لاکھ (150,129) ہیں۔ان میں 88 فیصد سکول سرکاری ہیں۔سرکاری سکولوں میں ملک بھر کے تقریباً61 فیصد بچے زیرتعلیم ہیں۔ اس طرح سرکاری مڈل سکولز یعنی چھٹی سے آٹھویں تک،میں پڑھنے والے بچے کل تعداد کا 62 فیصد ہے۔ان اعداد وشمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ سکول بند ہونے کی وجہ سے بچوں کی بڑی تعداد حصول علم سے محروم رہی۔
یہ توہم جانتے ہی ہیں کہ ابتدائی تعلیم میں طالب علم معلم پر بہت انحصار کرتے ہیں۔ بچوں میں ابھی یکسوئی کے ساتھ آزادانہ طورپر کام کرنے کی صلاحیت پختہ نہیں ہوتی۔ استاد ایک رہنما اور مددگار کے طورپر پورا وقت بچوں کے ہمراہ گزارتا ہے اور بروقت رہنمائی کے ذریعے دلچسپ انداز سے بنیادی تصورات بچوں کو ذہن نشین کراتا ہے۔سکولوں کی بندش کے بعد گھر میں پڑھائی یا آن لائن پڑھائی کے ذریعے پڑھانے کا سارا بوجھ والدین کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے جو پہلے سے ہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے خراب مالی صورت حال، بڑھتی ہوئی مہنگائی، روزگار میں کمی اور اس صورت حال سے پیدا ہونے والی گھریلو پریشانیوں میں گرفتار تھے۔اس کے علاوہ والدین کا پڑھا لکھا نہ ہونا، جدید ٹکنالوجی کی سمجھ یا رسائی نہ ہونے جیسے عوامل نے صورت حال کو مزید گھمبیر کردیا ہے۔
گھر میں تعلیمی ماحول یعنی سکول جیسا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بھی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔غریب اور متوسط طبقہ یا تو ایک دو کمروں کے گھر میں رہتا ہے یا پھر مشترکہ خاندانی نظام ہوتاہے۔جہاں پرسکون تعلیمی ماحول کی فراہمی والدین کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ پڑھائی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ، داخلہ کی شرح میں کمی اور مجموعی تعلیمی معیار گرنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
عالمی ادارہ اطفال یونیسیف کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 22.8 ملین بچے جن کی عمر پانچ تا سولہ سال ہے، سکول نہیں جاتے۔وباکی وجہ سے سکولوں کی بندش کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ایک ممکنہ وجہ روزگار چھوٹ جانے کی وجہ سے خاندانوں کا ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنا ہے۔
یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کچھ اساتذہ روایتی سوچ رکھنے کی وجہ سے غیرذمہ دارانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے ان بچوں کی حوصلہ شکنی کریں جو متوقع معیار پر پورا نہ اتر پائیں۔ایسے میں بچوں کے اندر احساس محرومی میں اضافہ اور سکول چھوڑنے کا رجحان بڑھنا قدرتی امر ہے۔
موجودہ تعلیمی سال کے دوران نجی اور سرکاری دونوں قسم کے سکولوں میں بچوں کے داخلہ کی شرح کم رہی۔ جس کا سب سے بڑا سبب تعلیمی اداروں کی متوقع غیریقینی صورت حال ہے۔ نتیجتاً سکول جانے لائق بچوں کی ایک کثیر تعداد داخل نہ ہوسکی۔
Annual Status of Education Reportعصر2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کے بچے تعلیمی میدان میں شہری علاقوں میں پرھنے والے بچوں سے بہت پیچھے ہیں۔طویل عرصے تک سکول بند ہونے کے بعد یہ فرق نہ صرف مزید بڑھے گا بلکہ مجموعی تعلیمی معیار گرنے کا بھی سبب بنے گا۔ اگلی جماعت میں جانے کے لئے ضروری اور بنیادی تصورات اس تعلیمی سال کے دوران پوری طرح پڑھائے نہیں جاسکے۔ سلیبس کا یوں ادھورا رہ جانا بچے کے لئے اگلی جماعت میں نئے تصورات سمجھنے میں دقت کا باعث ہوگا۔اساتذہ کے لئے بھی یہ ایک پریشان کن صورت حال ہے۔
اس تناظر میں حکومت کا پورے ملک میں سکولوں کامرحلہ وار کھولنے کا فیصلہ نہایت خوش آئند ہے۔ تاکہ تعلیمی سال پورا ہونے میں جو تھوڑا سا وقت رہتا ہے اس کو بہترین طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔ جہاں تک سکول کھلنے کے بعد کرونا وائرس سے وبا پھیلنے کا تعلق ہے، اس ضمن میں سخت احتیاطی تدابیر اختیار کرکے وبا سے محفوظ رہا جا سکتاہے۔
یہاں سکول انتظامیہ اور اساتذہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اساتذہ کو احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کرنا اور کرانا ہوگا۔کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ کرنے سے باز رہتے ہوئے بچوں کو پڑھنے کے لئے بہترین ماحول دینا ہوگا۔
حالات کا تقاضا ہے کہ بحیثیت قوم ہم یہ بات سمجھ لیں کہ گیر معمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔جب وائرس کا ایک دو سال تک مزید ہمارے درمیان رہنے کا امکان موجود ہے تو سکول بند کرکے بچوں کے مستقبل پر سمجھوتہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہوگی۔ اب ہمیں اس وائرس کے ساتھ رہنا سیکھنا ہوگا۔