کالم

"فارن فنڈنگ کیس: پڑھتا جا، شرماتا جا”

جنوری 16, 2021 7 min

"فارن فنڈنگ کیس: پڑھتا جا، شرماتا جا”

Reading Time: 7 minutes

سنہ 2014 کے وسط میں پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک منحرف رکن اور عمران خان کے سابقہ قریبی دوست اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پیٹیشن دائر کی- اکبر کے مطابق پی ٹی آئی نے بیرون ملک ممنوعہ ذرائع سے فنڈز حاصل کئے، یاد رہے کہ انتخابی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتیں غیرملکی شہریوں سے فنڈز حاصل نہیں کر سکتیں- الیکشن کمیشن نے اکبر ایس بابر کی پیٹیشن سماعت کیلئے منظور کر کے پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ جناب عمران خان کو نوٹس جاری کئے- اس کے بعد ہر سماعت پر الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرتا رہا، مگر پی ٹی آئی کی جانب سے نہ تو کوئی پیش ہوا نہ کسی نے جواب دینے کی زحمت کی- یہاں تک کہ 2015 آ گیا-

(یہ تحریر اڑھائی برس قبل لکھی گئی)

اس سال پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے یہ موقف اپنایا کہ ایک تو اکبر ایس بابر کو اس معاملے پر پیٹیشن کا حق حاصل نہیں تھا، دوسرا الیکشن کمیشن ماضی کے اکاؤنٹس کے متعلق ایسی کوئی پیٹیشن سننے کا مجاز ہی نہیں- اب ان دونوں اعتراضات کی سماعت شروع ہوئی- اکثر پیشیوں پر پی ٹی آئی کے نمائندے غیرحاضر رہے- الیکشن کمیشن نوٹس جاری کرتا رہا، آخر الیکشن کمیشن نے یہ دونوں اعتراضات مسترد کر دیے- پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی- اس دوران الیکشن کمیشن نے بھی سماعت جاری رکھی مگر پی ٹی آئی ہائی کورٹ کی اپیل کو بہانہ بنا کر الیکشن کمیشن سے بھاگتی رہی اور یوں یہ سال بھی گزر گیا-

2016 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان دونوں معاملات پر پی ٹی آئی کو دوبارہ الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کو کہا- الیکشن کمیشن نے دوبارہ ان اعتراضات کی سماعت کے بعد انہیں مسترد کر دیا- پی ٹی آئی اس فیصلے کے خلاف دوبارہ اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی- اس مرتبہ انہوں نے نہ صرف اپنے سابقہ اعتراضات دہرائے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس کیس کی مزید سماعت سے روکے- ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی مگر اعتراضات پر سماعت جاری رکھی- اب 2017 آ گیا-

2017 میں الیکشن کمیشن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا- کمیشن نے عمران خان اور پی ٹی آئی کو نوٹسز پہ نوٹسز بھیجنا شروع کئے- جماعت اور اس کے سربراہ پر ان کا کوئی اثر نہ ہوا، الٹا عمران خان صاحب نے الیکشن کمیشن پر تعصب اور جانبداری کا الزام لگایا جس پر الیکشن کمیشن نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس دیا- جب اس کا بھی اثر نہ ہوا تو بالآخر الیکشن کمیشن نے عمران خان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا- اس کے خلاف پی ٹی آئی پھر ہائی کورٹ چلی گئی، اس بنیاد پر کہ الیکشن کمیشن عدالتی اختیارات نہیں رکھتا اس لئے وہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا مجاز ہی نہیں- ہائی کورٹ نے گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کر دیے تاہم عمران خان کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی- عمران خان کے وکیل نے الیکشن کمیشن کے سامنے معافی نامہ پیش کیا، بعد ازاں خان صاحب نے فرمایا کہ وہ معافی نامہ وکیل نے ان کی مرضی کے بغیر دیا تھا-

(یہاں تک میں لکھتے لکھتے بور ہوچکا، آپ یقینا” پڑھتے ہوئے بور ہو چکے ہوں گے مگر پی ٹی آئی کی ڈھٹائی اور بے شرمی کی داستاں کی یہ محض شروعات ہے)

خیر چند مزید نوٹسز کے بعد بالآخر عمران خان خود کمیشن کے سامنے پیش ہوئے، کمیشن نے ان کی تازہ معافی قبول کی- اسی دوران سپریم کورٹ میں حنیف عباسی کی عمران خان اور جہانگیرترین کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع ہو چکی تھی- یاد رہے کہ حنیف عباسی نے عمران خان پر ایک تو بنی گالہ کی اراضی سے متعلق کیس کیا تھا، ان کا دوسرا مقدمہ پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کے متعلق تھا- ان کا استدلال یہ تھا کہ عمران خان نے 2013 میں الیکشن کمیشن کے سامنے بیان حلفی دیا ہے کہ ان کی جماعت غیرممالک سے فنڈنگ حاصل نہیں کر رہی جبکہ ان کے اکاؤنٹس میں غیرملکی فنڈز آتے رہے ہیں اس لئے جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر عمران خان صادق اور امین نہیں رہے-

اب یہ واحد کیس تھا جو بیک وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرسماعت تھا- سپریم کورٹ میں عمران خان کے وکلاء نے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ کیس الیکشن کمیشن میں زیرالتوا ہے، الیکشن کمیشن اسے سننے کا مجاز ہی نہیں اور ہم نے ہائی کورٹ میں اپیل کر رکھی اس لئے سپریم کورٹ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک اس کی سماعت نہ کرے-

یہ اعتراض مسترد ہوا، اب کہا گیا کہ ماضی کے اکاؤنٹس پاسٹ اینڈ کلوزڈ ٹرانزیکشن ہیں، ان پر کوئی فردواحد اعتراض نہیں کر سکتا بلکہ صرف وزارت داخلہ اس معاملے پر عدالت سے رجوع کی مجاز ہے- یہ اعتراض بھی مسترد ہوا- کیس کی سماعت کے دوران جج صاحبان کی جانب سے یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ اگر دہری شہریت کے حامل پاکستانی تحریک کو فنڈ دیتے ہیں تو اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟ جواب یہ دیا گیا کہ یہاں صرف دہری شہریت والے پاکستانیوں کی فنڈنگ نہیں ہے بلکہ بھارت اور اسرائیل کے شہریوں نے بھی مبینہ طور پر تحریک کی فنڈنگ کی ہے- الیکشن کمیشن کے نمائندے کا کہنا تھا کہ کمیشن یہ کیس سننے کا مجاز ہے اور فارن فنڈنگ ثابت ہونے پر تحریک انصاف کا ڈیکلریشن اور رجسٹریشن بھی منسوخ کی جا سکتی ہے- سپریم کورٹ نے کیس کے ناقابل سماعت ہونے کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اس پر جواب طلب کر لیا-

یہاں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، نعیم بخاری کے معاون وکیل نے عدالت کے سامنے امریکا سے موصول فنڈنگ کی کچھ دستاویزات پیش کیں جن پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اعتراض کیا کہ وہ جعلی ہیں، اور الیکشن کمیشن یا اکبر ایس بابر کے پاس موجود اسی ویب سائٹ سے حاصل کردہ دستاویزات سے مطابقت نہیں رکھتیں- مزید پڑتال پہ معلوم ہوا کہ غیرملکی شہریوں کے ناموں کی جگہ بھدے طریقے سے کاپی پیسٹ کر کے پاکستانی شہریوں کے نام بار بار دہرائے گئے تھے- اس پر جج برہم ہوئے اور انہوں نے وکیل سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں عدالت میں جعلی دستاویزات پیش کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں- وکیل صاحب نے نہ صرف معذرت کی بلکہ یہ بتایا کہ انہیں یہ کاغذات کلائنٹ کی جانب سے مہیا کئے گئے ہیں، انہوں نے خود حاصل نہیں کئے- یہاں سماعت میں وقفہ ہوا اور جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت بنی گالہ اور جہانگیرترین کے معاملات سنتی رہی اس معاملے پر مزید سماعت یا بحث نہ ہو سکی- تاہم عدالت یہ قرار دے چکی تھی کہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر تفتیش اور کاروائی کا اختیار رکھتا ہے- یہ سن کر اسد عمر اور شیریں مزاری دوڑے دوڑے الیکشن کمیشن گئے اور جس ادارے سے تین سال دور بھاگتے چلے آئے تھے، وہاں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پر فارن فنڈنگ کے الزامات پر مبنی پیٹیشن دائر کر دی گئی-

جب تاریخی فیصلہ آیا تو جناب عمران خان سرٹیفائیڈ صادق اور امین اور جہانگیر ترین سرٹیفائیڈ نااہل قرار پائے- فارن فنڈنگ کے متعلق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا حق سماعت پہلے ہی تسلیم کر لیا تھا، کمیشن سے کہا گیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کے پچھلے پانچ برس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کر کے ان پر فیصلہ دے- جناب عمران خان کی اس کیس میں اہلی یا نااہلی کا فیصلہ اس کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہوا تو عدالت مناسب فیصلہ کرے گی- یہاں ایک کنفیوژن یہ پیدا ہوا کہ کیا الیکشن کمیشن فیصلے سے پچھلے پانچ برس کی جانچ پڑتال کا مجاز ہے یا الیکشن سے پہلے پانچ سال کی؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سال جنوری میں تحریک انصاف کی دونوں درخواستیں مسترد کرتے ہوئے، الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کی تحقیقات کی مجاز اتھارٹی قرار دیا- اب پی ٹی آئی جس ادارے کو تین سال سے غچہ دیتی چلی آئی تھی، اس کے پاس اس کے سامنے پیش ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا-

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے فنڈز کی جانچ پڑتال کرنا تھی- پہلی سماعت پر کمیٹی ٹوٹ گئی، ازسرنو تشکیل پانے اور ٹرمز آف ریفرنسز طے کئے جانے کے بعد اب اس کی سماعت جاری ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ تین رکنی کمیٹی میں دو ممبران فوجی اداروں سے لئے گئے ہیں- کاروائی کا تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی نے کمیٹی کی ٹی او آرز پہ اعتراضات دائر کر دیے ہیں، ان کا مطالبہ تھا کہ کمیٹی ان اعتراضات پر فیصلے تک اپنی سماعت روک دے، کمیٹی نے ایسا نہیں کیا چنانچہ اس کی ہر سماعت پر پی ٹی آئی اپنے وکیل کی ناسازی طبع، فنانس سیکرٹری کی عدم موجودگی کا بہانہ بنا کر مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنے سے انکار کرتی رہی، یہاں تک کہ تین مئی کو کمیٹی کو دیا گیا ایک ماہ کا وقت ختم ہوگیا- اب نو مئی کو الیکشن کمیشن نے اعتراضات کی سماعت کرنی ہے اس کے بعد یہ واضح نہیں کہ نئی کمیٹی تشکیل پاتی ہے یا پرانی کی مدت میں اضافہ کیا جاتا ہے-

اس ساری ٹال مٹول، حیلے بہانوں، بے شرمی، ڈھٹائی اور بے غیرتی کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، فنڈز کی سکروٹنی پی ٹی آئی یا اس کے نام نہاد صادق اور امین لیڈر کی سیاسی موت ہے-

اس ساری کاروائی کا موازنہ آپ پانامہ کیس کی اب تک کی کاروائی سے کیجئے، میاں نواز شریف اب تک صرف احتساب عدالت میں باسٹھ پیشیاں بھگت چکے، جے آئی ٹی کی کاروائی اس کے علاوہ تھی- آغاز سے آج تک کسی ایک مرحلے پر بھی عدالتی احکامات سے روگردانی، مقدمے سے بھاگنے یا عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض نہیں کیا گیا- وفاقی کابینہ کے ایک وزیر نااہل ہو چکے، چار کے خلاف کاروائی جاری ہے- کسی نے بھی بہانہ نہیں بنایا، کوئی بھاگا نہیں، کسی نے عدالتی کاروائی میں رکاوٹ نہیں ڈالی-

یہ دہرانا بھی مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ اب تک "لاڈلے” کو تین مرتبہ بچا چکی ہے- بنی گالہ کیس میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کیس سے مختلف معیار رکھ کر، سپریم کورٹ میں فارن فنڈنگ کی جعلی تفصیلات پیش کرنا نظرانداز کر کے اور پھر سپریم کورٹ ہی میں بنی گالہ مینشن کا جعلی این او سی جمع کروانا نظرانداز کر کے- اب الیکشن کمیشن کیا فیصلہ دیتا ہے اور سپریم کورٹ کا اس فیصلے پر کیا ردعمل ہوتا ہے مجھے اس میں قطعی دلچسپی نہیں- مجھے اس کیس نے ایک گھناؤنے سیاستدان کی مکروہ سیاسی جماعت کا اصل چہرہ دکھا دیا ہے-

ایک سال، دو سال یا پانچ سال بعد ایک دن آئے گا جب تحریک انصاف اور عمران خان کی حمایت لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کا سب سے بڑا پچھتاوا بن جائے گی- جو زندہ رہا دیکھ لے گا-

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے