سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان آپس میں الجھے، حکومت کو پھر بھی شکست
Reading Time: 3 minutesاپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں دوحصوں میں بٹ گئی اور پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں چھ اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرز نے اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کے اعظم تارڑ کا ساتھ دیا۔
الیکشن کے بعد پیر کو سینیٹ کے پہلے باضابطہ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے سینیٹر دلاور خان گروپ کو ’تحفے‘ کہنے پر ان ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
قبل ازیں سینیٹ اجلاس سےقبل اپوزیشن جماعتوں کےعلیحدہ علیحدہ اجلاس ہوئے۔
پیپلزپارٹی کے ارکان کے اجلاس کی صدارت یوسف رضاگیلانی نے کی جبکہ اپوزیشن کے دوسرے گروپ کے سینٹرز کے اجلاس کی صدارت اعظم نذیر تارڑ نے کی اورحکمت عملی طےکی گئی۔
آزاد سینیٹرزکےلیڈراعظم نذیرتارڑ نےکہاکہ ہم 27 سینیٹرزاپنی آزاد حثئیت میں سینیٹ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اجلاس میں مسلم لیگ ن، جے یو آئی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کے سینیٹرز شریک ہوئے۔ سینیٹ میں آزاد اپوزیشن کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی۔
سینیٹ اجلاس میں آزاد سینیٹرز کے سربراہ اعظم نذیر تارڑ اور دیگر نے قائد حزب اختلاف کی تقرر پر سوال اٹھا دیے۔ اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ’ ہمیں الگ اپوزیشن بینچز الاٹ کئے جائیں۔‘
’بارہ مارچ کو ایوان میں جو کچھ ہوا وہ سب کو پتا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں خفیہ کیمروں کی تحقیقات کی جائیں۔ اپوزیشن لیڈر بنانے کے لیے پانچ تحفے بھجوائے گئے۔ اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر ہمارا دل رنجیدہ ہوا۔ ہم 27 لوگ الگ اپوزیشن کے طور پر کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘
اعظم تارڑ کے ریمارکس پر گیلانی کی حمایت کرنے والے دلاور خان گروپ نے اعظم نذیر تارڑ کی تقریر پر اعتراض کیا اور دلاور خان چار ارکان سمیت ایوان سے واک آوٹ کر گئے۔
اس سے قبل سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’جو سمجھتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن آسان ہے ایسا نہیں ہے۔ ساری زندگی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑتا رہا اس لیے اندازہ نہیں تھا۔‘
’لوگ بہت مشکل سے سینیٹرز بن کر آتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کا اندازہ تھا۔ اسی وجہ سے یہ ایوان بنایا گیا۔ اگر یہ احساس پہلے ہوتا تو سقوط ڈھاکہ نہ ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب میں وزیراعظم تھا تو خود کھڑا ہو کر سوالوں کے جواب دیتا تھا۔ اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر چلوں گا۔ ہم حکومت کی بھی آواز بنیں گے کیونکہ یہ ہمارا ملک ہے۔ پی ڈی ایم بنی تو مہنگائی، بے روزگاری سمیت دیگر طبقات کی ہم آواز بنے۔‘
یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ’یہ تاثر تھا کہ سینیٹ میں بزرگ زیادہ ہیں۔ یہاں آ کر دیکھا تو نوجوان زیادہ ہیں۔‘
سرکاری بینچ کے سینیٹر وسیم شہزاد نے کہا کہ یہاں ایک اتحاد ہوا جو پی ڈی ایم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وزیراعظم کو کسی قسم کی گیدڑ بھبکی نہیں روک سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور انتخابی اصلاحات کریں۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا ہے۔ جوڈیشل ریفارمز بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ نہ ہو کہ فیصلہ پسند ہو تو مٹھائی ناپسند ہو تو عدالت خراب ہے۔‘
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کے ہاتھوں حکومت کو پہلی شکست اس وقت ہوئی جب ایوان بالا پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ کوورنا ویکسین مفت یا اصل قیمت پر فراہم نک کیا جانا حکومتی ناکامی ہے۔
قرارداد اپوزیشن کے 43 ووٹوں کے ساتھ اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی ۔حکومت کو 31 ووٹ ملے۔
قرارداد جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ اکثر ممالک میں ویکسی نیشن فری لگائی جارہی ہے،پاکستان میں ویکسینیشن بہت مہنگی ہے، پاکستان نے ویکسین منگوانے کیلئے پرائیوٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا ہوا، پاکستان میں ویکسینیشن 8 ہزار چارسو روپے ہے، دیگر ممالک میں ویکسین کی قیمت پندرہ سو روپے ہے، یہ آئین کے آرٹیکل 38 کی خلاف ورزی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 38 میں واضح ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرے، عالمی منڈی1500جبکہ یہاں دو خوارکوں کی قیمت8400مقرر کی گئی،حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔
فیصل جاوید نے قرارداد کی مخالفت میں سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی کوویڈ کے خلاف اقدامات کی دنیا تعریف کرتی ہے لیکن یہ عجیب قرارداد منظور کی گئی ہے جس پر افسوس ہوا ہے۔
بعد ازاں چئیر مین سینٹ صادق سنجرانی نے سینٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔