ایف آئی اے کے نوٹس سنسرشپ کی بدترین مثال: ہائیکورٹ
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے صحافی اسد علی طور کو نوٹس کے خلاف دائر درخواست پر مقدمے کے فوجداری پہلو پر معاونت کے لیے تین وکلا کو مقرر کیا ہے۔
جمعے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں اسد طور کی ایف آئی اے نوٹس کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
اسد علی طور کی نمائندگی وُکلا عُثمان وڑائچ اور ایمان مزاری نے کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران سوالات کیے اور آبزرویشن دی کہ کیا اپوزیشن لیڈر وزیرِاعظم کے خلاف درخواست کرے کہ میری توہین کی ہے تو وزیراعظم کو ایف آئی اے نوٹس کرے گی؟ سمن کرے گی؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آبزرویشن دی کہ ایف آئی اے ہمیشہ یکطرفہ کاروائی کرتے رہی ہے اور ہم نے کبھی عدالت میں نہیں دیکھا کہ ایف آئی اے کسی حکومتی شخصیت کے خلاف کیس بنا کر لائی ہو۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ تحقیق کرکے بتائیں دُنیا کے کتنے مُمالک میں توہین کے الزام کو فوجداری جرم مانا گیا ہو؟
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے نوٹسز سنسرشپ کی بدترین مثال ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ
اگر تنقید پر کارروائی شروع کر دی تو بات کہیں نہیں رُکے گی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق دُنیا کے کئی مُمالک میں جب قانون سازوں نے توہین کو فوجداری کا قانون بنانے کی کوشش کی تو عدالت نے کالعدم کر دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے سے کہا کہ اگر آپ اس طرح نوٹس جاری کرنے لگ جائیں گے تو مُلک میں کوئی بھی نہیں بولے گا۔ صحافی اور اینکر روز کسی نہ کسی پر تنقید کرتے اور چور چور کر الزامات لگاتے ہیں، اگر ایسے نوٹس جاری ہونے لگے تو سب کو بند کرنا پڑ جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی عدالت کے بارے میں بہت توہین آمیز باتیں گی گئیں لیکن ایف آئی اے نے کبھی کارروائی نہیں کی۔
عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے عابد حسن منٹو، حامد خان اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کو عدالتی معاون مقرر کیا اور کہا کہ تینوں وکلا عدالت کی معاونت کریں کہ کیا سیکشن 20 آئین کے آرٹیکلز 14, 19, 19A سے متصادم ہے؟ کیا توہین کو فوجداری کا جرم بنایا جاسکتا ہے؟
عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا۔