ایسی کیا جلدی تھی؟ شہباز شریف بلیک لسٹ کیس سپریم کورٹ میں
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے شہباز شریف کو بلیک لسٹ سے نکالنے کے فیصلے پر وفاق کی اپیل پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
منگل کو جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ مسئلہ کسی کے بیرون ملک جانے کا نہیں عدالتی طریقہ کار کا ہے، جس رفتار سے عدالت لگی اور حکم پر عملدرآمد کا کہا گیا وہ قبل تشویش ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہائی کورٹ میں جمعہ الوداع کے روز اعتراضات لگے اور دور بھی ہوئے، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے یکطرفہ فیصلہ دیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں کہا کہ ہم شہباز شریف کا بطور اپوزیشن لیڈر احترام کرتے ہیں مگر قانون سب کے لیے برابر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف حکومتی اداروں نے اقدام کیا، بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی توہین کی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف کی دراخواست پر ہائی کورٹ کی 7 مئی کی مہر لگی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ مہر کے حساب سے تو درخواست دائر بھی اسی دن ہوئی جب حکم دیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو سکتا ہے؟ انتہائی ارجنٹ درخواست پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ شہباز شریف نے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے، درخواست واپس ہونے کے بعد وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا، شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست زیرالتوا ہے، توہین عدالت درخواست کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے فیصلے پر عمل کرایا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے شہباز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پوچھا کہ پٹیشن کب دائر ہوئی، کب مقرر ہوئی تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا شہباز شریف کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جو اتنی جلدی سماعت ہوئی؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد ہوئی تھی، ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ شہباز شریف کو ایمرجنسی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے تو وفاق کا موقف بھی نہیں سنا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شہباز شریف رکن پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔