حامد میر ! live to fight another day
Reading Time: 4 minutesصحافیوں کی ایک یونین نے حامد میر کی جانب سے ایک وضاحت جاری کی ہے اور اس میں ’دِل آزاری پر معذرت‘ کی بات بھی موجود ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ کئی برسوں سے یونینیوں کے کارپردازوں کے کندھوں پر دہری ’ذمہ داری‘ کا بوجھ ہے۔ ایک طرف وہ یونین کے اساسی مقصد یعنی صحافیوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب کسی بھی قسم کے ٹکراؤ کی صورت میں ’افہام تفہیم‘ کا کام بھی انہی کو کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا ، یہ غیرمتوقع نہیں ہے۔
حامد میر بلاشبہ ملک کے ممتاز ترین صحافیوں میں سے ہیں لیکن وہ اتنے طاقت ور بہرحال نہیں ہیں کہ حقیقی طاقت ور گروہوں سے بِھڑ کر سکون سے زندگی کر لیں۔ گروہوں کا مقابلہ گروہ ہی کر سکتے ہیں۔ فرد بے چارہ تو بُھس کی مانند اُڑ جاتا ہے۔
چند دن قبل حامد میر نے اسد علی طور پر نامعلوم افراد کے تشدد پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ نیشنل پریس کلب کے سامنے ہوئے اس اظہار کے بعد انہیں جیو نیوز کی اسکرین سے ہٹا دیا گیا تھا۔
حامد میر کی تقریر کے بعد ملک کے بہت سارے شہریوں نے ان کی حمایت کی،انہیں دبنگ ، بہادر اور غیرت مند قرار دیا۔ لیکن یہ حمایت سوشل میڈیا تک ہی محدود تھی۔ ہاں یونین نے کہیں کہیں حامد میر سے یکجہتی کے لیے علامتی احتجاج کیے اور اس صورت حال میں ذرا مختلف ڈویلپمنٹ ہوئی ہے۔
بعید نہیں کہ حامد میر اس ’وضاحت‘ کے بعد جیو نیوز کی اسکرین پر دوبارہ جلوہ گر ہو جائیں لیکن ایک بات سمجھنی چاہیے۔ وہ یہ کہ آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہار صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ سماج کا مسئلہ ہے ، یہ مفاد عامہ کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا معاملہ ہے۔
لوگ صحافیوں سے تو جرأت اظہار کے مطالبے کرتے ہیں اور کہتے رہتے ہیں کہ صحافیوں کو سچ بولنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی صحافی بولڈ رپورٹنگ کرتا ہے ، پیوستہ مفادات کے حامل بڑے گروہوں کو ایکسپوز کرتا ہے تو (اس کے اپنے ادارے سمیت) سب لوگ اس سے فاصلہ اختیار کر لیتے ہیں۔ اکثر اوقات تو اسے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ، سوشل میڈیا پر اس کے حق میں ٹرینڈز چند گھنٹوں کے لیے چلتے ہیں لیکن ان سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا عوام چاہتے ہیں کہ ان کے مفادات پر کسی بھی طرح کی انفرادی یا گروہی نقب زنی کے بارے میں انہیں آگاہ کیا جائے۔ اگر وہ چاہتے ہیں تو وہ اس آگاہ کرنے والے کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ گراؤنڈ پر اس کے لیے باہر کیوں نہیں نکلتے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔
بات یہ ہے کہ شہری آزادیوں کے باب میں اس سماج کو ابھی بہت سفر طے کرنا ہے۔ یہاں لوگ نفسیاتی و ذہنی طور پر کئی طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ اکثر لوگ گروہوں کے سائبان تلے تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ طاقتور اور فیصلہ ساز گروہوں کے ساتھ ٹکرانے یا ان کے سامنے کھڑے ہونے کی روایت اگر تھی ، تو وہ اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ جو طاقتوروں کے سائبان تلے جانے کو پسند نہیں کرتے وہ خاموش رہ کر ’نیویں نیوں‘ ہو کر زندگی گزارنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
کمزور(ماڑے) بندے کے متعلق ایک پوٹھوہاری کہاوت یاد آئی: ’’بے چارہ کَلا کشمیری کے کرے‘‘ یعنی بے چارہ اکیلا کشمیری بھلا کر بھی کیا سکتا ہے۔ حامد میر بہت مقبول اینکر اور نمایاں صحافی ضرور ہیں لیکن وہ ایسے طاقتور نہیں کہ بیچ چوراہے میں اپنے درد کا تلخ آہنگ میں اظہار کرنے یا یوں کہہ لیجیے کہ بلند آہنگ میں آہ و بکاء کے بعد وہ سکون سے رہ سکیں۔ سو اس معاملے میں نئی پیش رفت کے بعد حامد میر پر پھبتی کسنا نری بزدلی ہے۔
مجھے یہاں ایک اور واقعہ یاد آیا ، ایک اہم صحافی کو دس بارہ برس قبل ایک عسکری تنظیم کے سربراہ سے معافی مانگنا پڑی۔ تنظیم کا سربراہ کسی انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے ایک مضمون کی وجہ سے ناراض تھا۔ اس بیچارے نے کیا ناراض ہونا تھا، ناراض تو اس کے سرپرست ہوئے ہوں گے ، اس سے تو بس کام لیا جا رہا ہو گا۔
انگریزی میں لکھنے والے سینئر صحافی سے کسی نے پوچھا کہ جناب! آپ نے یہ کیا حرکت کی؟ تو ان کا جواب بڑا دلچسپ اور بلیغ تھا ۔ انہوں نے کہا: ’’میرے نزدیک گیدڑ کی سو سالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے بہتر ہے‘‘
جو ملک کے حالات ہیں ، مختلف النوع مفاداتی گروہوں کے ساتھ کوئی بھی صحافی ٹکرا کر سروائیو نہیں کر سکتا چاہے اس نے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے کتنے ہی انتظامات کیوں نہ کر رکھے ہوں ۔ ان گروہوں کی جڑیں سسٹم میں اس قدر گہری ہیں کہ وہ کسی بھی شخص کی زندگی اجیرن بنا سکتے ہیں۔
آج کل صحافت کی جگہ کلکس(clicks) اور ویوز ہنٹنگ (views hunting) کا چلن ہے لیکن یہاں بھی اظہار پر قدغنوں کی کیفیت نہیں بدلی ، بھلے آپ کی ویڈیو کے پہلے آدھ گھنٹے میں ڈیڑھ ملین ویوز آ جاتے ہوں ، سینکڑوں دفعہ وہ شیئر ہو جاتی ہو لیکن آپ اتنے طاقتور نہیں کہ آپ طاقت ور گروہوں پر سوال اٹھا کر عوام کے ایسے ہیرو بن جائیں کہ لوگ آپ کے لیے جوق در جوق سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس لیے حامد میر کو کوسنے ، انہیں بزدلی کے طعنے دینے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیے ۔ویرانے میں بھی دل کی بات کہنے سے جن کی جان جاتی ہو وہ کسی پر زبانِ طعن کیسے دراز کرسکتے ہیں؟ حامد میر کی دہائیوں کو محیط صحافت سب کے سامنے ہے ، ان کے خیالات سے اختلاف یا اتفاق سب کا حق ہے لیکن بزدلی کے طعنے وہ دے جو آزادیٔ صحافت ، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے بے جگری سے لڑا ہو اور اس جنگ کی قیمت چکائی ہو ۔ سوشل میڈیا پر سستی جگت بازی کم حوصلہ لطیفہ بازوں کا مشغلہ ہے۔
صحافی کی دلاوری کا تعین بھی وہی کر سکتا ہے جو خود عزیمت کی راہ چلنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
حامد میر کی ’معذرت‘ پر یہ شعر یاد آگیا:
اٹھا لیے گئے ہیں، جو اٹھا رہے تھے سوال
مگر سوال تو اب تک وہیں پڑا ہوا ہے
آزادیٔ اظہار کی لڑائی ایک کارِ مسلسل ہے،اس میں کبھی کبھی ضبط اور ٹھہراؤ سے بھی کام لینا پڑتا ہے اور انگریزی کے اس فرمودے پر عمل کرنا پڑتا ہے:
live to fight another day