پاکستان پاکستان24

ہائیکورٹ میں نواز شریف کی اپیل، ججز نے ویڈیو سکینڈل پر عدالتی معاون سے کیا کہا؟

جون 9, 2021 5 min

ہائیکورٹ میں نواز شریف کی اپیل، ججز نے ویڈیو سکینڈل پر عدالتی معاون سے کیا کہا؟

Reading Time: 5 minutes

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی پانامہ ریفرنسز میں سزا کے خلاف اپیلوں پر عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ سے مزید معاونت طلب کرلی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کا غیر حاضری میں ٹرائل نہیں ہوا۔ نواز شریف ٹرائل کے دوران موجود تھے جنہیں اپنے دفاع کا موقع بھی ملا۔ نواز شریف کی اپیل ان کی غیر موجودگی میں سننے کا معاملہ ہے۔
عدالتی معاون وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر عدالت غیر حاضری میں اپیل سنے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سزا غلط ہوئی تو بری کرنے پر تنقید ہو گی۔ اگر سزا برقرار رہی تو عملدر آمد کیسے ممکن ہوگا؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ تو ہم جو بھی دیں اس پر تنقید ہوگی، یہ سیاسی نوعیت کے سوالات ہیں، ہم قانونی نوعیت دیکھ رہے ہیں۔

بدھ کو جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے پانامہ ریفرنسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلوں پر سماعت کی۔

مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر وکیل امجد پرویز کے ہمراہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر لیگی قیادت اور کارکنان بھی بڑی تعداد میں کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالتی معاون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے تمام فریقین کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مختلف کیسز کے فیصلوں کے اثر کا فرق ہوتا ہے۔ اس کیس میں صرف سزا معطلی کا عارضی ریلیف دیا گیا ہے۔ اس کیس میں ڈس کوالیفیکیشن موجود ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب کہتا ہے اس اپیل کو اب میرٹ پر خارج کیا جائے۔ یہ اپیل لیکن سماعت کے لیے منظور ہو چکی ہوئی تھی۔ اب اپیل کرنے والے موجود نہیں تو کیا کریں؟
اعظم نزیر تارڑ نے موقف اپنایا کہ عدالتوں کی کچھ نظیریں موجود ہیں۔ عدالتیں کہتی رہیں کہ اس صورتحال میں فیصلہ میرٹ پر نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں وہ راستہ اپنانا چاہیے جس سے کسی کا نقصان نہ ہو۔ ایسے مقدمات کا ایک اثر ہوتا ہے جس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی مقدمات صرف قانون کی کتابوں میں نہیں، تاریخ کی کتابوں میں بھی رہتے ہیں۔ بھٹو کیس میں اگر کچھ طریقہ اپنا لیا گیا ہوتا تو آج دہائیوں بعد یہ شور نہ ہوتا۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مجھے اپنے ادارے عدلیہ کا وقار عزیز ہے۔ نواز شریف کی نااہلی اور سزا دونوں اس وقت برقرار ہیں۔ اس وقت مزید ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے عدلیہ پر حرف آئے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ غیرموجودگی میں ہائیکورٹ نے اپیلیں سن لیں پھر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیدیا۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ غیرموجودگی میں ٹرائل بنیادی انسانی حقوق کیخلاف ہے؟ اعظم نذیر تارڑ نے موقف اپنایا کہ میں کچھ نکات پر مزید معاونت اگلی تاریخ پر کروں گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کا وکیل خود مقرر کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے؟
اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیا کہ قانون اجازت دیتا ہے کہ ملزم مرضی کا وکیل کرے۔ ریاست کا وکیل فراہم کرنا کچھ مخصوص حالات کیلئے ہی ہے۔ ان حالات میں ملزم کا خود عدالت موجود ہونا ضروری ہے۔ آر ٹیکل 4 ، آرٹیکل 10 اے کو بھی دیکھنا چائیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ نواز شریف کا غیر حاضری میں ٹرائل نہیں ہوا۔ نواز شریف ٹرائل کے دوران موجود تھے جنہیں اپنے دفاع کا موقع بھی ملا۔ نواز شریف کی اپیل ان کی غیر موجودگی میں سننے کا معاملہ ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے موقف اپنایا کہ اگر عدالت غیر حاضری میں اپیل سنے اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سزا غلط ہوئی تو بری کرنے پر تنقید ہو گی۔ کہا جائے گا کہ وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا گیا ہے، اس کیس میں بری کرنے کے لیے جلدی کیوں کی گئی؟ اگر ایک لمحے کے لیے سوچ لیں کہ سزا برقرار رکھی جاتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حق بھی متاثر ہو گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہاکہ موجودہ نوعیت کے معاملات میں عدالتیں محفوظ راستہ ہی اختیار کرتی رہی ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کے دو شریک ملزمان بھی اس عدالت میں موجود ہیں۔ مریم اور کیپٹن صفدر کو بھی انہی شواہد پر سزا ملی۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر تو میرٹ پر اپنا کیس چلائیں گے ہی، انہی شواہد پر میرٹ پر ان دونوں کی اپیلوں پر فیصلہ ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نوازشریف واپس آکر اپنا کیس پھر بھی الگ چلا سکتے ہیں۔ عدالت خود چاہے تو کیپٹن صفدر اور مریم کی اپیلیں بھی فی الحال موخر کر دے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ایک ملزم کے موجود نہ ہونے پر دوسروں کا معاملہ تو التوا میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اعظم نذیر تارڑ نے موقف اپنایا کہ اگر کیس کو یہیں روک دیا جائے تو فرق نہیں پڑے گا۔ کل کو نواز شریف واپس آئیں یا لایا جائے تو کیس آگے چلا لیں۔ اس عدالت کے سامنے عوام کے دیگر کئی کیسز موجود ہیں۔ ہم اسی کیس کو چلا کر ان لوگوں کو بھی محروم کر رہے ہوں گے۔ ہم اس کیس کو میرٹ پر چلائیں تو کیا پتہ چھ مہینے لگ جائیں۔ ساری مشق کے بعد فیصلہ بھی ایسے آجائے پر عملدرآمد نہ ہو سکے تو فائدہ؟ ساری مشق کا نتیجہ بھی نہ نکلے اور تنقید الگ سے ہوتو فائدہ کیا ہے؟
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ فیصلہ تو جو بھی ہم دیں اس پر تنقید تو ہو گی ہی۔ یہ سیاسی نوعیت کے سوالات ہیں، ہم قانونی نوعیت دیکھ رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے موقف اپنایا کہ ان اپیلوں سے جج ویڈیو سکینڈل بھی جڑا ہوا ہے۔ کل نواز شریف آ کر کہہ سکتے ہیں میرا تو کیس ہی ویڈیو سکینڈل تھا۔ کل شوکت عزیز صدیقی کیس میں بھی کچھ باتیں سامنے آئیں۔
عدالت نے اعظم نذیرتارڑ کو جج کے ویدیو سکینڈل اور شوکت عزیز صدیقی کیس پر بات کرنے سے روک دیا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ جو معاملہ ہمارے متعلق نہیں اس پر بات نہ کریں۔ ہمیں کوئی غرض نہیں کہ ہمارے سامنے کس کا کیس ہے۔ ہم قانون کے مطابق میرٹ پر ہی فیصلہ دیں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کے پی کے اور کراچی سے کچھ فیصلوں کی نقول منگوا رکھی ہیں۔ حوالے کے طور پر آئندہ سماعت پر عدالت میں نقول پیش کروں گا۔ نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کا حق سماعت پہلے ہی ختم کیا جا چکا ہے۔ اس عدالت نے ہر پہلو کا جائزہ لے کر ہی ایسا کیا تھا۔ اب اس سٹیج پر نواز شریف کی اپیل خارج ہی کی جائے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ میرٹ پر آپ کو سن کر کریں یا ایسے ہی آپ کہہ کیا رہے ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ شواہد میں بھی جائے بغیر اشتہاری ہونے پر اپیل خارج ہو سکتی ہے۔ میں عدالت کے سامنے عدالتی حوالے بھی پیش کر دوں گا۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا برقرار رکھی جائے۔ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھائی جائے۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بریت کے خلاف اپیل میں ابھی تک نوٹس نہیں ہوئے۔

عدالت نے اعظم نذیر کو آئندہ سماعت پر مزید حوالے پیش کرنے کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب والے اپنے تحریری دلائل اعظم نذیر سے بھی شئیر کر دیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ اعظم نذیر یہاں ہمارے مخالف وکیل نہیں، اعظم نذیر عدالتی معاون اور ہمارے ساتھی ہیں۔
عدالت نے اعظم نذیر کو مزید معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 23 جون تک ملتوی کر دی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے