فوج کیوں حکومت گرائے گی، وزیراعظم کی اصل پریشانی کیا ہے؟
Reading Time: 6 minutesپاکستان کے وزیراعظم نے کچھ دن پہلے پھر سے حزب اختلاف پر الزام لگایا کہ اپوزیشن ہماری پیاری، مضبوط، مستحکم،چاک و چوبند فوج کو میری حکومت گرانے کی دعوت دے رہی ہے، بلکہ وزیراعظم صاحب کا الزام کچھ یوں تھا کہ "خود کو ڈیموکریٹک موومنٹ کہتے ہیں اور فوج کو کہہ رہے ہیں کہ میری حکومت گرادو”۔
وزیراعظم کی طرف سے یہ بیان پہلی مرتبہ نہیں آیا،وہ پہلے بھی اس طرح کی باتیں کر چکے ہیں اب کی بار فوج کے حوالے جو بیان دیا گیا ہے اس میں وزیراعظم نے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپوزیشن اور فوج کا آپس میں کوئی رابطہ ہے،کوئی تعلق واسطہ ہے، خفیہ طریقے سے یا پردے کے پیچھے حکومت کے خلاف کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ الزام صرف اپوزیشن پر نہیں، وزیراعظم حکومتی سربراہ ہونے کے ناتے اپنی فوج پر بھی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں،یہ کڑوا سچ اپوزیشن تو آئے دن بیان کرتی رہی ہے،لیکن جب وزیراعظم ایسی بات کردیں تو پھر اس کی اہمیت اور حیثیت بڑھ جاتی ہے۔
وزیراعظم صاحب جو بات کر رہے ہیں اس پر یہ دو سوال اٹھتے ہیں کہ کیا وزیراعظم سوچ سمجھ کر ایسے بیانات دے رہے ہیں یا وزیراعظم کی زبان بالکل اسی طرح پھسل رہی ہے جس طرح اس سے پہلے ایران یا امریکہ میں پھسل گئی تھی؟
ایران میں جب وزیراعظم کی زبان پھسلی تو یہ جملے سننے کو ملے کہ "پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوئی۔” اس طرح امریکہ میں ہمارے وزیراعظم کی طرف سے ہمیں یہ بات سننے کو ملی کہ” پاکستان نے طالبان کو پیدا کیا اور ان کی تربیت کی۔”
شکر ہے یہ زبان لاڈلے وزیراعظم عمران خان کی تھی، اگر یہ بات مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کرتے، یا حزب اختلاف کی جماعت کے کسی سربراہ یا رکن سے گناہ سرزد ہوجاتا تو زبان ہی کھنچ لی جا چکی ہوتی، پاکستانی تھانوں میں اس کے خلاف حب الوطنی کے ٹھیکدار درخواستیں لے کر پہنچ چکے ہوتے اور شاید اب تک ان پر پرچے بھی درج ہو چکے ہوتے،لیکن خان صاحب کو ایسی باتوں پر بھی استثنیٰ ملا ہوا ہے، ان باتوں کے دوران قومی یکجہتی، وسیع ترقومی مفادات اور ملکی سلامتی کو تاحیات درپیش خطرات کو ایک لمحے کے لیے نظرانداز کرنا پڑتا ہے کیوں کہ ریل کا انجں نیا نیا ہے۔ڈان لیکس کے بم بکھیڑے اور عمران خان کے ان دو بیانات میں کیا فرق تھا، بلکہ یہ غیر ممالک میں بیٹھ کر یہ بیانات دینا تو دھماکہ خیز تھے، لیکن چونکہ یہ عمران خان ہیں وہ نواز شریف تھے۔
پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم خان فوج اور اپوزیشن کو مل ملا کر جہ بیانات دے رہے ہیں اور وہ مکمل ہوش حواس اور اپنی عقلی شعوری حیثت میں دے رہے ہیں تو پھر یقین جان لیجئے کہ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ان کا نشانہ اپوزیشن ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے ( اسٹبلشمنٹ نہیں)سیاسی حامیوں، ساتھیوں اور مددگاروں کو ہوشیار کر رہے ہیں کہ فوج ان کا تختہ الٹ سکتی ہے، وہ پہلے سے ان کو سمجا بجھا رہے ہیں کہ اگر کل کچھ بھی ہوا تو اسے فوج اور اپوزیشن کا گٹھ جوڑ یا ملی بھگت سمجھا جائے یا یوں کہا جائے تو بھی غلط نہیں کہ وزیراعظم صاحب ایک رائے بنا رہے ہیں کہ فوج منتخب حکومت گرا سکتی ہے۔
لیکن عمران خان کی حکومت کوئی کیوں گرائے گا، ان کو حکومت میں لانے کا مقصد باقی سیاسی جماعتوں کی منجی ٹھوکنا، گندہ سیاسی کلچر پیدا کرنا، مفاہمت، مشاورت کا تیا پانچہ کرنا، سیاسی عدم برداشت، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑے،ہاتھاپائی، گریبان سے پکڑنا، مار دہاڑ اور آن ائیر پروگرام میں تھپڑیں رسید کرنے کا کلچر پیدا کرنا تھا، وہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے۔
اس ملک میں فوجی آمروں نے اپنے مفادات کو ملکی مفادات کا نام دے کر کئی بار مقبول قیادتوں کی سربراہی میں قائم حکومتوں کو گھر بھیجا،لیکن خان صاحب کی خوشقسمتی کہ وہ مقبول سیاسی رہنما بھی نہیں،تانگے مانگے سے لائے گئے کچھ اتحادی ان کو جھولی میں ڈال دیے گئے، پہلے دن سے ان پر الزامات ہیں کہ ان کی حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے اس لیے تو حکومت کے سربراہ ہی سلکٹڈ کہلاتے ہیں اور وہ سن کر تالیاں بھی بجاتے ہیں،عوام سے تو ان کا دور دور سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
بات کا مقصد کہ حکومت گرانا یا پھر ملک میں غیر جمھوری تسلط والے برے دن کبھی بھی شروع ہو سکتے ہیں،مارشل لاز اور آئین کی لتاڑ روکنے کا اختیار ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس ہے لیکن سب سے پہلے آمروں کے آگے وہ ہی لیٹی ہے، بڑی بدقسمتی ہے کہ ہر آمر کے آتے ہی سب سے پہلے معزز ججوں نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر تعبداری کی یقین دہانی کی اور ان کے فرمان پر آئین کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ۔
وزیراعظم کے یہ والے بیانات اس وقت آ رہے ہیں جب اپوزیشن اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ مقتدرہ کسی حد تک غیرجابندار ہو چکی ہے، یہ غیرجابنداری والی بات انہونی سی ہے، لیکن اس ملک میں کئی مواقعوں پر یہ یہ ضرور ہوا کہ جب اسٹبلشمنٹ کا مورال ڈائوں ہوا تو انہیں بریک لینا پڑا پھر سیاستدانوں کو کچھ دینا پڑا، سوائے مکمل اختیارات کے ان دنوں میں مقتدرہ کچھ وقت کے پیچھے ہٹ جاتی ہے لیکن حالات کنٹرول میں ہوتے ہی ملک میں پھر سے سیاسی، حکومتی، پارلیامانی اور انتظامی حددخلیوں کا کام شروع ہو جاتا ہے، اپوزیشن ضمنی انتخابات کے نتائج سے یہ اندازہ لگا رہی ہے کہ مقتدرہ غیرجانبدار ہوچکی ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کوئی جماعت یا رہنما یہ نہیں فرما رہے کہ اسٹبلشمنٹ سیاسی معاملات سے مکمل الگ تھلگ ہوگئی ہے، انہوں نے تجدیدِ عہدِ وفا کرلیا کہ وہ اب سیاست ، حکومت ، پارلیمنٹ، انتخابات اور انتظامی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے اور مستقبل میں بس وہی کام کریں گے جو آئین نے انہیں تفویض کیا ہےاور ہم اپنے حلف کی پاسداری کرکے سیاسی معاملات سے دور رہیں گے۔
جب ہم گڈمڈ سیاسی نظام اور اس میں غیر سیاسی و غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کی بات کرتے ہیں تو پھر اس گناہ میں سیاسی جماعتیں بھی برابر کی شریک ہیں،اب سیاسی جماعتیں کی حد نگاہ راولپنڈی سے آگے جاتی نہیں، سیاسی قیادت نے خود کو دھند کا عادی بنا دیا ہے،اب سیاسی فکر، نظریہ یہاں تک کہ سیاسی منثور بھی گیٹ نمبر چار پر قربان۔اب فکر،افکار، بحث مباحثے، عوام کے بھلے اور ملک کے مفادات کی بات اقتدار کی کرسی کے گرد گھوم کر ختم شدہ ہوجاتی ہے۔ سیاستدانوں کی نظریں راولپنڈی صدر سے کچھ فاصلے سے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہیں، پنڈی کی دعوتیں، وہاں کی بریفنگز، ہر کوئی دوڑ میں لگا ہے کہ مجھے کبھی بلایا جاتا ہے۔
بات وزیراعظم سے نکل کر کہیں اور چلی جاتی ہے ویسے وہاں جاتی ہے جہاں سے وزیراعظم برآمد ہوئے ہیں، یہاں اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کس فرسٹریشن کا شکار ہوکر ایسی بیان بازی کرتے ہیں؟کیا وہ اندر سے خوفزدہ ہیں؟ کیا ادارے ان کی پشت پناہی سے درگذر کر چکے اور اب ان کی پیٹھ پر دست شفقت نہیں رہا؟ کیا ان کے اپنے رفیق ان کے رقیب بن چکے؟ کیا ان کی جماعت میں کوئی بڑی دراڑ پڑنے والی ہے؟ کیا ان کے اتحادی ان سے زیادہ خفا ہیں؟ کیا اپوزیشن سے زیادہ ڈرے ہوئے ہیں؟ کیا ان کے وفادار ساتھی سچ مچ ناقابل اعتبار ساتھی بن چکے ہیں؟یا حکومت کی ناقص کارکردگی ان کے لیے گڑھے کھود رہی ہے؟ کیا انہیں واقعے کوئی الٹیمیٹم دیا گیا ہے؟کیا وزیراعظم روز کی ناکامیوں،اسکینڈلز، سیاسی بے وفایوں یا اپوزیشن سے ڈیل کے بارے ملنے والی رپورٹس سے اکتا چکے ہیں؟
ان کو ایک سیلبرٹی، ایک جگ مشہور ہستی اور ماہر چندیات کی کوالٹیز کے بنیاد پر لاکر وزیراعظم لگایا گیا،لانے والوں نے سمجھا اس چندے اکٹھے کرنے کے ماہرکے ذریعے اس ملک کو کامیابی سے ہمکنار کریں گے اپنی ہر بات منواتے رہیں گے،آگے یہ ہوں گے باقی کنٹرول پیچھے والوں کے پاس ہوگا، سب کچھ ہوا لیکن وزیراعظم کی اپیلوں پر قومی خزانے نہیں بھرے جا سکے، سلکٹرز نے ان کے سیاسی تجربہ کو دیکھا بھی نہیں لیکن ان کی کینسر ہسپتال، نمل یونیورسٹی اور کپتانی کے تجربے کو سامنے رکھ کر 22 کروڑ عوام کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑا دیا، جس کا نتیجہ سب ہی بھگت رہے ہیں۔
عمران خان اپنی حکومت سمیت پہلے دن سے ایک ناکام حکمران ثابت ہوئے، منیر نیازی کے بقول
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میںایک دریا سے اترا تو میں نے دیکھا
تیرنا تو اسے کبھی نہیں آیا کشتی کا چپو چلانا بھی سیکھ نہ پائے، تمام حکومتی چئلنج خان کی ناتجربہ کاریوں اور ناکامیوں سے شروع ہو کر ان کی ناقص کارکردگی پر ختم ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت پورا نہ ہونے کا خوف، جھانگیر ترین فیکٹر کا بے قابو ہوتا ہوا جن، اب تو وزیراعظم یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ ترین کن کے ہاتھوں، کیوں اور کس کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، اور پھر خان کو نصیب میں ایسے اتحادی ملے جو ایک تالی کی مار ہیں ،یہاں سے اڑے تو نیا بسیرہ بنا لیں گے۔ سوال بجٹ کا بھی ہے، یہ بجٹ منظور ہوگا کہ نہیں ہوگا، کیوں کہ جھانگیر ترین کے دس بارہ بندے صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں چھپم چھپائی کا کھیل جاری ہے۔
اگر حکومت بجٹ منظور کروانے میں ناکام رہی تو اس کے پاس باقی دو سال رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بچتا، ہاں یہ بات الگ ہے کہ یہاں اخلاقیات اور اصولوں کو اقتدار پر قربان کیا جاتارہا ہے۔اپنی ناکامیاں، ناقص کارکردگی، دست شفقت کا ڈھیلا پڑ جانا، حزب اختلاف سے ڈیل کی خبریں، اسکینڈلزپر اسکینڈلز،پنی جماعتوں کے حر بنے ممبران اور ناقابل اعتبار اتحادیوں کے رویوں نے وزیراعظم کو پریشان کر کے رکھ دیا اس میں اگر وہ ایسے بیانات نہیں دیں گے تو اور کیا کریں گے؟
kumbharibrahim@gmail.com