پاکستان پاکستان24

گجر نالہ متاثرین کے وکیل کی سپریم کورٹ میں دلچسپ دلیل

جون 14, 2021 2 min

گجر نالہ متاثرین کے وکیل کی سپریم کورٹ میں دلچسپ دلیل

Reading Time: 2 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی کے گجر نالے کی صفائی نہ ہونے کا ذمہ دار سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو ٹھہرایا ہے جبکہ متاثرین کے وکیل نے عدالت سے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے قبضے عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے درست قرار دیے جا سکتے ہیں تو نالے کے ساتھ بنے مکانوں کو ریگولرائز کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

پیر کو کراچی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں، یہ ایک نالا صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شاہراہ فیصل پر ٹاور کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شاہراہ فیصل کا روڈ کبھی کم نہیں ہوا بڑھا ہی ہے اس کے دونوں اطراف کا سروس روڈ انکروچمنٹ کیا گیا ہے، سب کرپٹ ہیں کمشنر بھی کہہ رہے ہیں قبضہ ہے، سارے رفاہی پلاٹس ہیں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہے، پیسے دیں جو چاہے کریں، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ان حالات میں صوبہ کیسے گزارا کرے گا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بتائیں، آپ سب جانتے ہیں، آپ کی حکومت کیسے کوئی اور چلا سکتا ہے؟ کسی کو تو کھڑا ہوکر اس کو روکنا ہوگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمانی طرز حکومت کا کچھ مطلب ہوتا ہے اور پارلیمانی حکومت مضبوط حکومت ہوتی ہے، جب آپ نالہ صاف نہیں کراسکتے تو صوبہ کیسے چلائیں گے؟ سال پہلے نالہ صاف کرنے کا حکم دیا، روزانہ نئے نئے بہانے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت کینیڈا سے چلائی جارہی ہے اور کراچی کو یونس میمن کینیڈا سے آپریٹ کررہا ہے، یونس میمن ساری بڈنگ وہاں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے۔

عدالت کو گجر نالے کے گرد گرائے جانے والے مکانوں کے متاثرین کے وکیل نے بتایا کہ تجاوزات کی بات درست نہیں، مکینوں کے پاس زمین خریدنے کی دستاویزات ہیں، وکیل نے رجسٹری عدالت کو دکھائی تو چیف جسٹس نے کہا کہ نالے کے گرد آبادی کو قانونی نہیں کیا جا سکتا جس پر وکیل نے کہا کہ پوش علاقوں میں بحریہ ٹاٶن سمیت دیگر سوسائٹیوں کو عدلیہ نے پھر کیسے قانونی قرار دے دیا؟ عدالت اپنے پہلے سے فیصلوں کو مثال بناتے ہوئے اس معاملے کو دیکھے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبے میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 میں شروع ہوا 2017 میں ختم ہوا، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جاسکتی تھی، آر او پلانٹس کا پیسہ 1500 بلین روپے ہے، تھر کے لوگ آج بھی پانی کو ترستے ہیں، سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ، آپ لوگ فیصلہ کرلیں کرنا کیا ہے اس طرح حکومت نہیں چلتی بلکہ حکومت ہے ہی نہیں۔
عدالت نے کہا کہ بجٹ کا مطلب اپنے لیے فنڈ مختص کرنا ہوتا ہے عوام کے لیے نہیں، لوگوں کو تو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوتا۔

عدالت نے منیر اے ملک کی عدم موجوگی کے باعث سماعت 16 جون تک ملتوی کردی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے