قوم پرستی گالی نہیں، قوموں کی رکھوالی ہے
Reading Time: 4 minutesحکومت کے ہاتھ میں اور تو کچھ نہیں رہا لیکن نعرے بازی، گالم گلوچ، بیان بازی، تقاریر، خطابات، طعنےبازی،پریس ریلیز اور کانفرنسز ہی بچی ہیں،لیکن کئی کام وہ ہوتے ہیں جو کہ آگے بڑھ کر کرنا پڑتے ہیں، جن کو عملی کام کہا جاتا ہے اور ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ عملی کام کے لئے بھڑکیں مارنے کی ضرورت نہیں ہوتی، کام نہ کرنا ہو تو بھڑک مار کر وقت گزارا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت ایک علت خاص میں مبتلا ہے، جس کا جی چاہتا ہے ایک سے بڑھ کر ایک بھڑک مار ڈالتا ہے،لوٹے بازی کے وسیع تر تجربہ کاری کے باوجود سیاسی ناتجربہ کاروں کے اس ٹولے کو سادہ سی بات کا بھی علم نہیں کہ بغیر سوچے سمجھے، غیرسنجیدگی کے مینار پر چڑھ کر اوٹ پٹانگ باتیں کرنے،بے جا الزمات اور تہمتیں لگانے سے حکومت کا کام بنتا نہیں بگڑتا زیادہ ہے۔
آج کل ایک وزیر موصوف ملک کی دو بڑی جماعتوں پر قوم پرستی کا الزام لگا رہے ہیں، یہ الزام نہیں نہ ہی قومپرستی کوئی گالی ہے،لیکن ان کا یہ خیال ہی خیال ہے،لگتا ہے کہ حکمران ٹولے کے کان میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ صوبے، قوم ، صوبے میں رہنے والے باقی عوام، قوموں کے وسائل، مسائل اور حقوق کی بات کرنا قومپرستی ہے، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن وہ بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قومپرستی وفاق سے تعصب کے مترادف ہے، میں سندھی ہوں سندھی قوم سے ہوں، پاکستان میں ایک وفاقی نظام ہے، میں پاکستانی ہوں لیکن میں پاکستانی ہونے سے پہلے بھی سندھی تھا، اب بھی سندھی ہوں اس میں کون سا تعصب ہے؟
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ لوگ قومپرستی کو گندہ دھندہ ثابت کرکےاپنے نمبر بڑھانے کے لئے کوشان ہیں۔انہیں شاید قومپرست لفظ کے سادہ معنیٰ بھی سمجھ میں نہیں آتے۔”ایسا فرد جسے اس کی اپنی قوم سے ہی جانا پہچانا جائے، جو بھرپور انداز سے کھل کر اپنی قوم کے مفادات کی حمایت کرے اور ان مفادات کے لئے آواز اٹھائے، یہ تشریح ہے قومپرستی کی، آکسفورڈ ڈکشنری میں نیشنلزم کے معنیٰ اور تعریف بھی کچھ اس طرح کی ہی ہے،یعنی اپنی قوم سے شناخت یا اسے کی مفادات کی تائید کرنا۔
وزیر اطلاعات غلط اطلاعات پھیلا رہے ہیں، وہ اطلاعات کے وزیر بنیں ناکہ افواہ سازی کے۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نواز وفاق پرست جماعتیں ہیں، پیپلز پارٹی نے تو سندھ کو پلیٹ میں رکھ کر ہمیشہ اسلام آباد کو پیش کیا ہے اور فخریہ انداز میں خود کو وفاق کی نمائندہ جماعت کہتی ہے، اسی طرح نواز لیگ بھی علائقائی، صوبائی جماعتیں کہلوانے کے بجائے خود کو وفاق کی جماعت ہے اور بلکل ہے یہ ضرور ہے کہ اس جماعت نے صرف ایک بار جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا۔
قوم کی بات یا اطاعت کرنا کوئی گناہ نہیں لیکن اگر کسی وفاقی جماعت کے لیڈر نے ایک دو بار کوئی ایسی بات کردی تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس میں کیا مصیبت آ گئی؟ یہ کام تو دو سے زیادہ مرتبہ وزیراطلاعات خود اور وسیم اکرم پلس بھی کر چکے ہیں ، تو اب وہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف قومپرستی کی طرف راغب ہو رہی ہیں ،بس اکیلی تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی وفاقی جماعت ہے۔
پیپلز پارٹی اب بھی وفاقی جماعت ہے اور وفاق پر راج کرنے کے لیے ہر قسم کی ڈیل کو تیار ہے، مسلم لیگ نواز کا بھی یہ سلسلہ ہے لیکن کوئی ہے جو ان کو صوبوں کی طرف دھکیل رہا ہے، جسے یہ بات اس وقت سمجھ نہیں آ رہی لیکن جس دن ان جماعتوں نے صوبائی یا قومپرستی کی سیاست شروع کی تو بڑی مصیبت آ جانی ہے،اور ان دونوں جماعتوں کو وفاق سے بیدخل کرنے کے پیچھے جو عوامل ہیں ان کا سدباب نہیں کیا گیا تو آگے سب کو پچھتانا پڑے گا، ان پر وفاق کی سیاست کے دروازے بند کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، خاص طور پر پنجاب سے اگر کوئی ایسی تحریک اٹھی تو سب کا ڈر ختم ہوجانا ہے۔
رہی بات پاکستانیت یا پاکستانی قوم بننے کے رجحان کی تو اس کے لیے ضروری ہے پہلے دن رکھی گئی بنیاد کو درست کیا جائے،شروع دن سے منافرت، امتیازی سلوک،ناانصافی، نابرابری سے کام لیا گیا،نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرکے کسی کو جھپیاں ڈالنے کا نہیں کہا جا سکتا۔
پاکستان ہمارا وطن ہے جسےکسی اور نے نہیں، نا یونینسٹ پارٹی نے نا یونین جیک کو سلامی دینے والوں نے بنایا،اس ملک کو اس کی قوموں نے بنایا جس میں کلیدی کردار سندھی اور بنگالی قوم کا تھا، جن کو بعد میں کھڈے لائین لگا دیا گیا، یہ بات سمجھنا انتھائی ضروری ہے ملک بننے سے پہلے اس خطے میں سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچ اور سرائیکی اقوام صدیوں سے بستی تھیں ان کے اپنے وطن، اپنی پہچان، اپنی زبانیں، ثقافت اور تہذیبیں تھیں اور سب موجود ہیں اور رہنی ہیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب اقبال نے ابھی آزاد ملک کے لیے خواب بھی نہیں دیکھا تھا، جب جناح صاحب نے کوئی خاکہ ہی نہیں سوچا تھا اس وقت بھی یہاں قومیں بستی تھیں۔
ملک بنتے ہی ملک بنانے والی قوموں کا وجود مٹانے کے ٹھیکیدار جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف ایک دوسرے کے پیچھے آآگئے جنرل ایوب سے جنرل یحییٰ نے پاکستان کی ایک بانی قوم بنگالیوں پر ظلم ڈھائے، اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا ظلم سہتی قوم نے دنیا کے نقشے پر ایک اور ملک کھڑا کردیا ملک کی دوسری بانی سندھی قوم پر جنرل ضیاالحق نے فوجی جھازوں سے بم گرائے،سندھ میں جنرل ضیاالحق سے جنرل پرویز مشرف نے وہ سب ترکیبیں استعمال کیں جو ایک قوم کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔لیکن قومیں اپنا وجود بچانے کے لیے آخر تک لڑتی ہیں۔
رہی بات فلاحی اور سیکیورٹی اسٹیٹ بنانے کی تو یہ اضطراب، یہ انتشار، افراتفری، عدم استحکام، آئیسولیشن اور بہت کچھ صرف اس لیے ہے کہ عوام کو عزت دینے کے بجائے مخصوص طبقے کو عزت دی گئی،اس ملک کو فلاحی ریاست کے بجائے سیکیورٹی ریاست یا سروسز پروائیڈر ریاست بنایا گیا، جس سے ہر آمر جنرل نے اپنا پیٹ بھرا، اور مزے کی بات اس ملک میں ایسا کوئی نیب نہیں جو کسی پیٹ بھرے رٹائرڈ جنرل کو نوٹس دے سکے۔ لیکن یہاں لوگوں کی بات نہیں سنی گئی،قوموں کو ٹارگٹ کیا گیا، نئی قومیتیں بنانے کی کوشش کی گئی، ملک کی بانی قوموں پر جملے کسے گئے، طنز کے تیر برسائے گئے،بنگالی کالے اور چھوٹے تھے، بلوچ گںوار ٹھرے، سندھی جاہل اور کرپٹ کہلائے جانے لگے،جب ملک ایک ریاست کے ڈھانچے پر کھڑا ہی نہ ہو سکا تو اس میں رہنے والی مختلف اقوام ایک قوم کیسے ہوسکتی ہیں؟
اب سوال یہ بھی ہے کہ مرکز مضبوط کس طرح ہونا ہے؟ یہاں دو آرا پائی جاتی ہیں، راولپنڈی کا خیال ہے کہ اسلام آباد کی مضبوطی وفاق کی مضبوطی کی ضمانت ہے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ صوبوں کی مضبوطی سے اسلام آباد مضبوط ہوگا،میں دوسری رائے سے اس لئے متفقق ہوں کہ صوبوں نے ہی ملک بنایا تھا وہ ہی مضبوط کرسکتے ہیں۔kumbharibrahim@gmil.com