پاکستان پاکستان24

ججوں کے استحقاق میں پلاٹوں کا حصول شامل نہیں: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

جون 14, 2021 8 min

ججوں کے استحقاق میں پلاٹوں کا حصول شامل نہیں: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ

Reading Time: 8 minutes

سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے شاگردوں عمر گیلانی اور محمد عادل چٹھہ سے غیر رسمی گفتگو کی جو یہاں قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
س:- خواجہ صاحب ! آپ میڈیا کو انٹرویو نہیں دیتے اس کی کیا وجہ ہے؟

ج:- آپ درست کہہ رہے ہیں۔ میں میڈیا کو انٹرویو نہیں دیتا۔ میرے میڈیا کو انٹرویو نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار رپورٹنگ درست نہیں ہوتی۔ بعض اوقات تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ دانستہ طور پر رپورٹنگ صحیح نہیں کی گئی۔ آپ لوگوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کی ہے کیونکہ آپ میرے شاگرد رہ چکے ہیں۔ مجھے آپ سے یہ اطمینان رہتا ہے کہ جو کچھ میں آپ سے کہہ رہا ہوں آپ اُسے من و عن بیان کریں گے۔

س:- آپ نے غلط رپورٹنگ کی بات کی۔ آپ کے خیال میں عدالتی فیصلوں کی غلط رپورٹنگ کا بنیادی سبب کیا ہے؟

ج:- اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انگریزی ہمارے لیے ایک غیر ملکی اور مشکل زبان ہے۔ کبھی کبھار مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ججوں کو بھی صحیح انگریزی نہیں آتی۔ جو رپورٹرز سپریم کور ٹ اور ہائیکورٹ کی رپورٹنگ کر رہے ہوتے ہیں‌ان کی اولین زبان بھی شاید انگریزی نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں جو کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہے اور جو فیصلے انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں، ان کی درست رپورٹنگ ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا میں ایک ہی فیصلے پر دو یا دو سے زیادہ متضاد تبصرے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فیصلہ انگریزی میں لکھا جاتا ہے اور رپورٹ اُردو میں ہوتا ہے۔ اس رپورٹنگ میں بہت کچھ کھو جاتا ہے اور بہت کچھ بدل جاتا ہے۔

س:- عدالتیں اس ساری صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہیں؟

ج:- میرے خیال میں اس صورتحال میں عدالتوں کا بھی ہاتھ ہے۔ اگر وہ سلیس، آسان فہم اُردو میں اپنا فیصلہ لکھ دیں تو ہمارے بیشتر لوگ اُسے خود پڑھ سکیں گے۔ جیسے میں آپ کو مثال دوں کہ میرے ہائیکورٹ کے قاصد جو کہ پانچویں پاس تھے اُردو میں لکھے ہوئے فیصلے پڑھ لیتا تھے۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب فیصلہ ایک غیر ملکی زبان یعنی (انگریزی) میں لکھا جاتا ہے۔ میں نےسپریم کورٹ کے ایک اردو فیصلے کی تمہید میں لکھا تھا:

"عدالتی کارروائی کی سماعت میں اکثر یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ کئی دہائیوں کی محنت شاقہ اور کئی بے نوا نسلوں کی کاوشوں کے باوجود آج بھی انگریزی ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگوں کی زبان ہے اور اکثر فاضل وکلاء اور جج صاحبان بھی اس میں اتنی مہارت نہیں رکھتے جتنی کہ درکار ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کے نسبتاً سادہ نکتے بھی انتہائی پیچیدہ اور ناقابل فہم معلوم ہوتے ہیں۔ یہ فنی پیچیدگی تو اپنی جگہ مگر آرٹیکل251کے عدم نفاذ کا ایک پہلو اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک ہے۔ ہمارا آئین پاکستان کے عوام کی اس خواہش کا عکاس ہے کہ وہ خود پر لاگو قانونی ضوابط اور اپنے آئینی حقوق کی بابت صادر کیے گئے فیصلوں کو براہ راست سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمران جب اُن سے مخاطب ہوں تو ایک پرائی زبان میں نہیں بلکہ قومی یا صوبائی زبان میں گفتگو کریں۔ یہ نہ صرف عزت نفس کا تقاضا ہے بلکہ ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور دستور کا بھی تقاضا ہے۔ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں۔ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے”۔

مجھے تعجب ہوا جب میں نے سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کو یہ کہتے سُنا کہ اُردو ہماری قومی زبان ہےلیکن انگریزی ہماری سرکاری زبان ہے۔ یہ بات میرے لئے نا قابل فہم ہے ۔ کیونکہ آرٹیکل 251 میں تو لکھا ہوا ہے کہ سرکاری اور قومی زبان اُردو ہو گی اور صوبائی زبانوں کو صوبے رواج دینگے ۔ موجودہ صورتحال کا اس کے برعکس ہونا نو آبادیاتی نظام کا شاخسانہ ہے گوکہ انگریز کو گئے 74 سال ہو گئے ہیں ۔ انگریزی بلاشبہ ایک اچھی اور مفید زبان ہے، لیکن عدالتی تناظر میں انگریزی کا کوئی کردار نہیں ہو نا چاہئے۔ آئین کا بھی یہی تقاضا ہے- جج صاحبان یہی حلف لیتے ہیں کہ اپنے فرائض منصبی آئین کے تحت انجام دیں گے۔ عدالتوں کو چاہئے کہ تن آسانی کو ترک کرتے ہوئے کم از کم اہم فیصلے اُردو میں تحریر کریں۔

س:- آپ نے اُردو میں بے شمار فیصلے تحریر کئے۔ آپ کو اس میں کیا مشکلات پیش آئیں اور آپ کا یہ تجربہ کیسا رہا؟

ج:-سپریم کورٹ میں 800-700 کے قریب ملازمین ہیں۔ ان میں اردو کا ایک بھی سٹینوگرافر (کاتب) نہیں ہے۔ لہذا میں میڈیا سیل کےافسران کو کہتا تھا اور وہ میرے لئے اُردو ٹائپ کر لیتے تھے۔ اگر عدالتیں خود ہی آئین کی پاسداری نہیں کریں گی تو پھر وہ یہ توقع کیسےکرسکتی ہیں کہ عوام الناس آئین و قانون کی پاسداری کریں گے؟

س:- آپ نے اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں مقدمات کی سماعت کی ہے۔ آپ کی رائے میں ججز کے سوالات اور وکلاء کی بحث عام طور پرکس زبان میں ہوتی ہے؟

ج:-میں تو صرف اپنی عدالت کی حد تک جواب دے سکتا ہوں ۔ میں تو ہمیشہ وکلاء کو کہتا تھا کہ آپ کا موکل ساتھ کھڑا ہے، آپ اس زبان میں بات کریں جو آپ کا موکل بھی سمجھ سکے۔ میری تو یہی کوشش ہوتی تھی کہ ساری بحث اُردو میں ہو۔ یا اگر ضروری ہو تو پھر سائل کی زبان میں ہو صوبائی دارلحکومتوں میں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اگر وکیل صاحب کی انگریزی اچھی نہ بھی ہو تب بھی وہ غلط انگریزی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن جب میرے کہنے پر وہ اُردو میں بات کرتے تھے، تو وہ اپنے موکلوں کی بہت بہتر نمائندگی کرپاتے تھے۔

س:- گزشتہ غیر رسمی گفتگو میں آپ نے سوال اٹھایا تھا کہ سپریم جوڈیشیل کونسل درخواستوں کو کس ترتیب سے چلاتی ہے؟ کوئی خاص ترتیب نہ ہو نے کے کیا نقصانات ہیں؟

ج:- عدالتوں اور ججوں کی ساکھ کا دارومدار شفافیت پر ہے – عدالت کے پاس سب سے بڑی قوت اس کی ساکھ ہی ہے۔ معلومات تک آزادانہ رسائی (Freedom of Information)کی اہمیت شفافیت کےحوالے سےبھی ہے ۔ لہذا شفافیت کا تقا ضا یہ ہے کہ عوام الناس کو پتا چلنا چاہئے کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی ضابطہ کار ہے یا وہ من مانی پر مبنی ہے ؟ یہ آئین، عدالت کے تقاضوں اور انصاف کے تقاضوں کے بالکل بر عکس ہے۔ اگر سپریم جوڈیشل کو نسل سے سوا ل کیا جاتا ہے تو ان کو جواب دینا چاہئے کہ ہمارا طریقہ کار یہ ہے- مجھے اب تک نہیں معلوم کہ ان کا طریقہ کار کیا ہے۔ میں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو اس بارے میں10 جنوری 2019 میں ایک خط بھی لکھا تھا۔اس کے بہت ماہ بعد محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس دائر کیا گیا۔

س:- سپریم کور ٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے کیس میں شارٹ آرڈر کے بعد بعض حلقے سوال کر رہے ہیں کہ اب تو ججز کا احتساب نہیں ہو سکتااور تمام ججز نے مل کر ایک جج کو احتساب سے بچالیا ہے۔اس بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے؟

ج:- پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ اگر آسان فہم اُردو میں فیصلہ ہو تو پھر یہ باتیں سوشل میڈیا پر نہیں ہو ں گی کیونکہ لوگ خود آرڈر پڑھ لیں گے۔ اور اگر کوئی شخص غلط تاویل کرنا چاہے گا تو عوام اس سے کہیں گے کہ تم غلط کہہ رہے ہو۔ لہذا ایک حد تک ان غلط فہمیوں کی ذمہ داری ججوں پر بھی آتی ہے۔ ججوں کا احتساب آئین کے مطابق ہونا چاہئے- آئین میں ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہی طریقہ کار اپنایا جائے جو آئین میں درج ہے اور وہ ہر جج پر یکساں لاگو ہو۔ اگر کسی جج کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی بیوی اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات دیں تو پھر ہر جج کو اپنی بیوی اور بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے چاہئیں، چاہے وہ ان کا کفیل ہے یانہیں ہے۔ میں تو میڈیا نہیں دیکھتا لیکن میڈیا کو راستہ خود عدالتیں فراہم کرتی ہیں کیونکہ زبان کا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی میڈیا والا بد نیتی کے ساتھ بھی کوئی بات کرتا ہے تب بھی وہ یہ عذر پیش کر سکتا ہے کہ مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے۔

س:-کیا یہ مناسب ہے کہ ججز کا احتساب دوسرے ججز ہی بیٹھ کر کریں؟

ج:- ججز کا احتساب آئین کے مطابق ہی ہونا چاہئے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر طریقہ کار کیا ہو ؟کیا پھر احتساب سوشل میڈیا میں ہو؟البتہ اگر کوئی آئینی ترمیم کی جائے تو یہ طریقہ کار بدلہ جا سکتا ہے طرح کے معاملات میں‌جو ایک چیز ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے مقدمات کو ٹیلی وژن پر لائیو سٹریم کیا جائے اور اگر لائیو سٹریم نہ بھی ہوں تب بھی عدالت کی جانب سے دن کے آخر میں پیشی کا مکمل مسودہ جاری کیا جائے۔برطانیہ میں ہر عدالتی فیصلے کے بعد ایک مختصر ویڈیو جاری کی جاتی ہے جس میں مقدمے کے اہم نکات برطانوی سپریم کورٹ کا جج خود بیان کرتا ہے اس سے عوام الناس خود فیصلہ کر پائیں گے۔ یہ تجویز تو اچھی ہے لیکن اس کا ضابطہ وضع ہونا چاہئے- مقصد یہ ہے کہ عدالتی کارروائی عوام تک ہو بہو پہنچے۔

س:- اس معاملے کے بعد ججز کے مالی معاملات پبلک لائٹ میں آئے ہیں کیا اعلیٰ عدلیہ کے باقی جج صاحبان کو بھی شفافیت کو مدِنظر رکھتےہوئے اپنے اثاثے پبلک کرنے چاہیں؟

ج:- جو بھی آئین اور قانون کہتا ہے وہی ہونا چاہئے- اگر اعلیٰ عدلیہ آرٹیکل 19A کی یہ تاویل کر دے کہ ججز کو بھی اثاثے ظاہر کرنے چاہئیں، تو پھر ایسا ہی ہونا چاہئے۔ لیکن جو بھی قاعدہ طے ہو، اس کا اطلاق سب پر ہونا چاہئے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک جج تو اپنے اثاثے ظاہر کر دے اور باقی ججز اپنے اثاثے ظاہر نہ کریں۔ اگر عدالت ارٹیکل 19A کی یہ تاویل کرتی ہے کہ تمام ججز اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں تو پھر اس اُصول کا اطلاق عدلیہ کے تمام معزز ججز پر ہوگا۔

س:- جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر حکومت نے جب ریفرینس دائر کیا تو بہت سے لوگ حیران ہوئے کہ احتساب کا آغاز ایک ایسے جج سے کیا گیا ہے جس کا شمار ان چند ایک ججز میں ہے جنہوں نے کبھی حکومت کی سوسائٹی ایف جی ای ایچ ایف سے پلاٹ بھی قبول نہیں کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ ماضی میں اکثر جج صاحبان حکومت سے پلاٹ وصول کرتے رہے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

ج:- ضابطہ اخلاق کے آرٹیکل VIII میں درج ہے کہ ایک جج کو یہ اجازت نہیں کہ وہ حکومت سے یا کسی اور سے کوئی مراعات لے۔ ججز کا استحقاق صرف اسی حد تک ہے، جتنا جج صاحبان کے استحقاق،پینشن اور مراعات کے آرڈر 1997 The Supreme Court Judges Leave, Pension and Privileges Order, 1997) میں درج ہے۔ جوحقوق آئین ایک جج کو دیتا ہے وہ ضرور لیں، مگر مجھے ان حقوق میں پلاٹوں کا کہیں بھی ذکر نہیں ملا۔ آپ خود ہی سوچیں کہ اعلی عدلیہ کے جج صاحبان ایک ایسی سوسائٹی سے پلاٹ لینے کے حقدار کیسے ہو سکتے ہیں جو بے گھر سرکاری ملازمین کے لئے بنی تھی۔ جج نہ تو سرکاری ملازم ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ کسی بھی حوالے سے غریب غربا میں شامل ہوتے ہیں ۔

س:- انصاف کیا ہے؟

ج:- اس پر بہت ساری بحث ہو سکتی ہے مگر میرے نزدیک اس کا جواب ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے اور وہ لفظ ہے "برابری”۔ آپ نے یہ نہیں دیکھنا کہ سائل کون ہے، بڑا ہے یا چھوٹا ہے- حدیث شریف میں بھی یہی آیا ہے اور آئین بھی یہی کہتا ہے- بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وکیل تگڑا کر لو تو کا م ہو جاتا ہے۔ میرے خیال سے یہ عدل وانصاف کے منافی ہے۔

س:- کون سے کام ایسے ہیں جو عدلیہ کو کرنے چاہئیں اور کو ن سے کام عدلیہ کو نہیں کرنے چاہئیں۔ جوڈیشل رسٹرینٹ (Judicial Restraint) کانظریہ کیا ہے؟

ج:-جو کام قانون اور آئین نے عدلیہ کے ذمے لگائے ہیں، وہی عدلیہ کے ہیں- ان کاموں کے کرنے سے عدلیہ خود ہاتھ نہیں کھینچ سکتی- خاص طور پر اگر کسی فرد کے بنیادی حقوق مفلوج ہو رہے ہوں، تو ایک جج اس معاملے میں مداخلت سے صرف سیاسی بنیادوں پر گریز نہیں کر سکتا۔ اگر اپنی ذمہ داریوں کا تعین عدلیہ نے خود ہی طے کرنا تھا تو پھر آئین اور قانون کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے