کالم

مذہبی مدرسوں میں جنسی جرائم، افسانہ یا حقیقت؟

جون 16, 2021 7 min

مذہبی مدرسوں میں جنسی جرائم، افسانہ یا حقیقت؟

Reading Time: 7 minutes

میری اس تحریر کا مقصد مولوی حضرات اور ان کے مدرسوں پر طنز ہے اور نہ ہی اس کا سبب مولویوں سے کوئی ذاتی یا سیاسی اختلاف ہے۔ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر تحمل کے ساتھ ذراواضح بات کرنی اہم ہے۔ اس وقت دیگر بورڈنگ اسکولز وغیرہ میرا موضوع ہیں اور نہ ہی وہاں پائے جانے والے مسائل، اس لیے یہ کہنا کہ ”فلاں ایسا کرتے ہیں تو اس وقت تم کیوں نہیں بولتے“ یا ”ایک شخص کے جرم کو لے کر ساری کمیونٹی کو برا نہیں کہا جا سکتا“ وغیرہ قسم کی مشہور دلیلیوں کو ایک طرف رکھ پر یہ تحریر پڑھیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ”استثنائی مثالیں بھی ہوتی ہیں، سارے ایسے نہیں ہوتے“، ان کے لیے عرض ہے کہ اگربالفرض کہیں کوئی استثنائی مثال ہے تو وہ یہاں زیربحث نہیں ، اس لیے سکون سے توجہ کریں۔
تازہ واقعہ یہ ہے کہ لاہور صدر کے قریب واقع دیوبندی مکتب فکر کے ایک مدرسے کے بزرگ استادمفتی عزیز کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں وہ ایک نوجوان کے ساتھ جنسی عمل میں مصروف ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ وہ نوجوان اس مدرسے کا طالب علم ہے۔ یہ ویڈیو بہ ظاہر اسی نوجوان نے خفیہ طریقے سے ریکارڈ کی ہے، اس نوجوان کی چند سیکنڈز پر مشتمل گفتگو بھی سنی، ص نامی اس طالب علم کا کہنا تھا کہ ”اب بات سامنے آ گئی ہے، مفتی صاحب کے بیٹے کا فون آیا ہے، وہ بلیک میل کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کو جان سے مار دیں گے، میں ایک جگہ چھپا ہوا ہوں، لیکن میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ نہ انصاف ملا ہے اور نہ ہی کسی نے میری بات سنی، جبکہ میں نے سب سے بات کی ہے اس کے باوجود۔۔۔، تو میں خود کشی کر رہا ہوں، یہ میرا آخری فیصلہ ہے، اگر مجھے جان سے مارنا ہے تو اس سے اچھا یہی ہے کہ میں خودکشی کر لوں“.

بزرگ مفتی کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا وائرل ہونے کے بعد مختلف طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔ بعض مولوی حضرات بھی فیس بک پر اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں اور قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ مولوی موصوف کی جے یو آئی سے سیاسی وابستگی کو ہدف بنا کر خوب کُٹیلے تبصرے کر رہے ہیں اور اس سے ملتے جلتے ماضی کے واقعات بھی یاد دلا رہے ہیں۔ دوسری جانب سفید ریش مولوی کی حمایت میں کچھ لوگ احمقانہ قسم کی دلیلیں بھی پھینک رہے ہیں کہ ’مولوی پر دہریوں نے جادو کر دیا ہے اس لیے وہ زنا کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘ یہ طنز، تعریض، جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ تو کچھ دن چلے گا اور پھر ہمیشہ کی طرح یہ ایشو بھی کسی نئے واقعے تلے دب کر کہیں گُم ہو جائے گا۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ لاہور صدر بازار کے قریب واقع اس مدرسے جامعہ منظور الاسلامیہ کے ناظم خلیل اللہ ابراہیم نے بھی اس ایک ویڈیو بیان میں اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ مفتی موصوف کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ مفتی کی برطرفی کا ایک نوٹیفیکیشن بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ ادھر دیوبندی مدارس کے امتحانات لینے والے ادارے وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے بھی مفتی موصوف کو مسؤل وفاق کی ذمہ داری سے الگ کر دیا ہے۔ شنید ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے بھی تحقیقات مکمل ہونے تک مفتی صاحب کی بنیادی رکنیت معطل کر دی ہے۔ یہ تو تھی اس معاملے میں اب تک کی پیش رفت۔
اب آئیے ذرا اس مسئلے پر کچھ بات کر لیتے ہیں۔
پاکستان میں اکثر مذہبی مدارس کا نظام اور ماحول ایسا ہے کہ وہاں بچوں یا طالب علموں کے مکمل تحفظ کوئی ضمانت نہیں دی جاتی، مدارس عموماً عوامی چندوں سے چلتے ہیں اور مذہبی مدرسوں میں سکونتی طلبہ کی تعداد جتنی زیادہ ہو، چندہ جمع ہونے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ مدارس کے ذمہ دار مخیر حضرات یا سیٹھوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے زیادہ مسکین طلبہ ہیں، ان کی کفالت ہماری ذمہ داری ہے لہٰذا ہماری مدد کیجیے۔ بیش تر مدارس میں آمدن کے آڈٹ وغیرہ کا کوئی خاص نظام نہیں ہوتا، مدرسے کا مہتمم عملاً اس کا مالک ہوتا ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ ہو یا کوئی استاد یا ملازم اسے چیلنج کر سکے۔ مہتمم حضرات کی یہ خودمختاری مالی سمیت کئی ’جہات‘ میں پھیلی ہوتی ہے اور اس پر’سیٹ اپ‘ میں رہتے ہوئے سوال اٹھانا کافی مشکل کام ہے۔

اکثر مدارس میں ملک کے انتہائی غریب اور پس ماندہ علاقوں کے بچے پڑھتے ہیں، وہاں ایسے بچے بھی پائے جاتے ہیں جو چار چار برس تک اپنے گھر بار یا گاؤں واپس نہیں جا سکتے بلکہ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ملک کے دور دراز علاقوں سے کراچی کے مدارس میں داخل ہونے کے بعد قریب ایک عشرے تک واپس نہیں جا سکے، سفری اخراجات کا نہ ہونا اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ان بچوں اور طلبہ کا کلی انحصار مدرسے پر ہوتا ہے، کھانا پینا، رہائش، علاج اور لباس وغیرہ انہیں وہیں سے ملتا ہے۔ والدین سے دور مدرسے کے ہاسٹلوں میں زندگی گزارنے والے ان کم عمر بچوں اور بعض اوقات نوجوان لڑکوں کو اپنے بعض اساتذہ یا ساتھی طالب علموں کی جنسی دست درازیوں کا سامنا بھی رہتا ہے۔ یہ ایسی حقیقت جس سے انکار سہل نہیں ہے۔

یہ بات بہت عام ہے کہ مدارس کے طلبہ اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتے ہیں، انہیں مختلف بزرگوں اور محترم سمجھی جانی والی شخصیات کے واقعات سنا کر اس احترام کے لیے تیار کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ قاری اساتذہ کے بدترین تشدد کو، سکھائی گئی یا سنی ہوئی اس دلیل کی بنیاد پر سہہ لیتے ہیں کہ ”جسم پر جہاں جہاں قاری یا استاد کی چھڑی، تار یا پائپ برسے گا وہ جگہ جہنم کی آگ کے لیے حرام ہو جاتی ہے“۔ استاد کا احترام قابل تعریف عمل ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اسی احترام کی وجہ سے یہ بچے یا طلبہ اپنے ساتھ ہونے والے جنسی یا جسمانی تشدد کی شکایت تک نہیں کرتے، اکثر کیسز میں وہ اپنے گھر والوں کو بھی ایسے واقعے سے بے خبر رکھتے ہیں۔ ”مسلمانوں کے عیبوں کو چھپانے“ کی ترغیبِ مسلسل بھی ایسی وارداتوں کو سامنے نہیں آنے دیتی۔ مذہبی مدارس میں جنسی اسکینڈلز کی کہانیاں تو وہاں کے طلبہ کے درمیان گردش کرتی رہتی ہیں لیکن بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اسیکنڈل عوام میں آئے۔ بچوں کو پڑھانے والے قاریوں کی شکایات کبھی کبھار سامنے آتی ہیں لیکن ایسے واقعات کے سدباب کی بجائے تنقید کرنے والوں کو مذہبی علماء و مدارس بلکہ مذہب کے دشمن، لبرل، دہریے یا ملحد کہہ دبا دیا جاتا ہے۔

ملک میں طالبات کے بہت سے مدارس ہیں جنہیں عموماً عربی میں مدارس البنات کہا جاتا ہے۔ بارہا ایسے مدارس کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں لیکن مذہبی جماعتوں یا مذہب کے علم برداروں کی جانب سے ان واقعات کے سدباب کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ یہاں لڑکیاں بچوں اور نوجوان لڑکوں کی نسبت زیادہ خطرے میں ہوتی ہیں، اندازہ لگائیے(اور آپ صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں، میں تو متاثرین سے ایسے کئی واقعات سن چکا ہوں۔۔۔) کہ جب سامنے آنے والے کیسز کو بھی ’سازش‘، ’جادو‘ وغیرہ کہہ کر دبا دیا جاتا ہے تو پھر پردوں کے پیچھے کتنے ہی سوال دم گھٹ کر مر جاتے ہوں گے۔ ابھی چند برس قبل پنجاب کے ایک بہت نمایاں مولوی کا اس قسم کا اسکینڈل سامنے آیا تھا لیکن مذہبی حلقوں نے اسے زیادہ لائق اعتناء نہیں سمجھا۔ نتیجہ یہ ہے وہ مولوی ابھی تک اسی طرح ’حق کی شمشیر براں‘ بنا ہوا دندناتا پھر رہا ہے۔

مذہبی مدرسوں ہی سے ملتے جلتے کچھ صوفیانہ قسم کے ’مراکز اصلاح‘ سے بھی ایسی شکایات ملتی رہتی ہیں۔ میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ مدارس کے طلبہ اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتے ہیں۔یہی حال کئی مراکز اصلاح کے خاص مریدوں کا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ یا مرشد کی ہر طرح کی خدمت اپنی سعادت سمجھتے ہیں، ہر طرح کی خدمت میں استاد یا پیر کی جسمانی خدمت بھی شامل ہوتی ہے۔ مریدینِ خاص اور طلبہ اپنے اساتذہ یا مرشد صاحب کی جسمانی خدمت میں بعض اوقات(مختلف محرکات کے زیر اثر) ’مبالغہ‘ بھی کر دیتے ہیں،لیکن بالغوں اور نابالغوں کے ایسے ’مبالغوں‘ کی خبریں کم ہی باہر آپاتی ہیں۔

اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مذہبی مدارس میں ہم جنس پرستی،امردپرستی،اغلام بازی، لواطت یا طلبہ کا جنسی استحصال محض ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے، مفروضہ ہے تو اس کے ساتھ مزید کیا بات کی جا سکتی ہے؟ اسے ’سلام‘ ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا شخص یا تو پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مدارس اور مذہبی مکاتب کے ماحول کے بارے میں علم ہی نہیں رکھتا یا پھر اسے ہر وقت دین و مذہب کے بدنام ہونے کا اندیشہ لاحق ہے، اس لیے وہ کھلی تنقید کو ’سازش‘ اور ’دین دشمنی‘ کہہ کر ناقدین کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ ’فرقے یا مسلک کی بدنامی‘ کے خدشے کے تحت ایسے مسائل و معاملات اندر ہی اندر حل یا طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اکثر اوقات یہ مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ معاملات ’طے‘ ہی ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مذہبی مدارس میں پھیلے ہوئے اس ناسور کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟ مدارس میں بچوں کے قیام کے دوران ان کے جسمانی استحصال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ کون سا ایسا فارمولا ہے جو مدارس کے منتظمین کو خود احتسابی کی راہ پر ڈال سکتا ہے؟
یہ سوال ہیں تو بہت سادہ لیکن ان کا جواب ویسا آسان نہیں ہے۔ حکومت ایک کام یہ کر سکتی ہے کہ بچوں کو پیدا کرنے والے والدین کو قانونی طور پر پابند بنائے کہ وہ ان کے بالغ ہونے تک ان کی نگرانی، حفاظت اور دیکھ بھال کے ذمہ دار ہیں، پیدا کر کے دُور دار مدرسوں میں اجنبیوں کے رحم و کرم پر پھینک کر بے فکر ہو جانے والے والدین کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔ ریاست کو عوام میں یہ شعور بھی پیدا کرنا ہو گا کہ جنسی عمل سے ایک انسان کو اس دنیا میں لا دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ والدین مکمل طور پر دنیا میں آنے والے اس وجود کے تحفظ اور اس کی پرداخت کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ریاست کا نمبر دوسرا ہے۔ اس باب میں ریاست اگر پہلے نمبر پر آ جائے تو اسے یہ لوگ مغرب کا ایجنڈا کہہ دیں گے۔

دوسرا مسئلہ ارباب مذہب کا ہے جنہیں اپنی ذات یا فرقے پر ہر سوال مذہب کے خلاف سازش اور سوال پوچھنے والا لبرل، سیکولر، دہریہ یا ملحد دکھائی دیتا ہے۔ اہل مذہب (مذہبی تنظیموں، مذہبی سیاسی جماعتوں اور مدارس کی تنظیموں) کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے انسانیت سوز واقعات پر کھل کر سامنے آئیں۔ مذہبی مراکز میں بچوں یا نوعمر طلبہ کے جسمانی و جنسی استحصال کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے خود ہی اس کا حل تجویز کریں۔ حکومت کی سرپرستی کی صورت میں اپنی خود مختاری کمپرومائز ہونے کے خدشے میں مبتلا منتظمینِ مدارس کو مدارس کے اندر کی ان جنسی خودمختاریوں کا نوٹس لینا چاہیے۔ کوئی دوسرا شخص اٹھ کر آپ پر سوال اٹھائے تو آپ اسے دین دشمن اور گستاخ قرار دے دیتے ہیں، اس لیے (پنجابی محاورے کے مطابق) اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنا بہت ضروری ہے۔

آخری بات میں یہ کروں گا کہ آپ حکومتی سرپرستی میں آئیں یا نہ آئیں، اپنے مدارس کے مالی معاملات کی شفافیت کو یقینی بنائیں یا نہ بنائیں، تعلیمی اصلاحات اپنائیں یا نہ اپنائیں، ہر دو صورت میں آپ پر سوال اٹھانے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ خاص طور پر اگر مدارس میں طلبہ کا جنسی استحصال ہو گا تو سوال ضرور اٹھے گا۔ اہل مذہب کی بدنامی کے خوف سے ایسے انسانیت سوز واقعات کو دری کے نیچے دبانا اب بہت آسان نہیں رہا۔ دیکھا گیا ہے کہ مدارس کے علاوہ کسی اور جگہ یا ادارے میں میں کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے تو اہل مذہب ’سماج میں پھیلتی ہوئی بے حیائی، فحاشی، عریانی‘ کے خلاف باہر نکل آتے ہیں۔ منبروں سے دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں اور خوب جھاگ اڑاتے ہیں۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ ارباب مذہب ذرا اُس ’بے حیائی اور فحاشی‘ کا بھی اسی شدت سے نوٹس لیں جس شدت سے یہ سات سمندر پار بیٹھی ایک لڑکی کے اپنی ماں سے ہوئے مکالمے پر ردعمل کا اظہار کیاکرتے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے