کالم

یہ کمپنی اب نہیں چلنی؟

جون 17, 2021 4 min

یہ کمپنی اب نہیں چلنی؟

Reading Time: 4 minutes

ٹٹیری ایک خوبصورت پرندہ ہے،رات کو دیہاتوں میں اس کی آواز سننے کو ملتی ہے. کہا جاتا ہے کہ یہ پرندہ سوتے وقت ٹانگیں آسمان کی طرف کرلیتا ہے اورسمجھتا ہے کہ اگر اس نے ٹانگیں سیدھی کیں تو آسمان نیچے گر جائے گا۔
پاکستان میں فوجی آمر یا اس کی سوچ کے سویلین آمر جب بھی اقتدار یا بڑے عہدوں پر آتے ہیں ٹٹیری کی طرح کا سوچتے ہیں، میں آپ کو چند مثالیں دے کر یہ ثابت کروں گا .
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے فلاں کام نہیں کیا تو خدانخواستہ ملک تباہ جائے گا۔
اس سوچ کو اگر سادہ الفاظ میں پرفیکشن کہا جائے تو بھی چل جائے گا،یعنی وہ لوگ جو خود کو عقل کل،ہر لحاظ سے پرفیکٹ گردانتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نہیں ہوں گے تو پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
جنرل ایوب سے بات شروع کریں، جنرل یحیٰ کو لیں، جنرل ضیاالحق، جنرل پرویز مشرف، اب یہ تو ہوئے جنرل، خود ذوالفقار بھٹو اس سوچ کے مالک تھے،آج کے وزیراعظم کی بات بعد میں کرتے ہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے قاضی جسٹس افتخار چوھدری رات دن یہ ہی سوچتے تھے کہ وہ نہیں ہوں گے تو ملک کا کیا بنے گا، ثاقب نثار کو بھی راتوں کو نیند اس لیے نہیں آتی تھی۔

پرویز مشرف نے ایوان صدر سے بیدخل ہوتے ہوئے جو پریس کانفرنس کی تھی اس میں بھی پاکستان کا خدا حافظ لفظ کہے تھے۔آج کے وزیراعظم جن کے آئیڈل ملک کے سارے آمر ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کو کیوں کس طرح اور کن مقاصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو سر کے اوپر لے کر کھڑے ہیں، یہ سچ ہے کہ اگر عمران خان نہیں ہوتے تو یہ پاکستان نہیں ہوتا پھلتا پھولتا پاکستان ہوتا۔

وزیراعظم کے کئی ساتھی، وزرا، مشیران و ترجمان ایسے ہیں جو ” من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو” کہتے نہیں تھکتے ۔اربوں روپوں کے اسکینڈلز آ جائیں،حکمران زندگی بچانے والی دوائیں کھا جائیں، اشتہارات کے کمیشن کھا جائیں،کورونا کے ماسک کھا جائیں، چینی پر ڈاکہ ماردیں، دال آٹا ہڑپ کرلیں، رات کے اندھیرے میں تیل کی مد میں ہزارہا ارب رپیے دبوچ لیں لیکن پھر بھی وہ ایماندار ہیں، کیوں کہ ثاقب نثار نے ان کے لیڈر کو صادق و امین قرار دیا تھا اس لیے ان کی جماعت، ان کے اتحادی، ان کے حامیوں اور سہولتکاروں کے سوا سب کرپٹ، چور،بدکار، بدعنوان اور مجرم ہیں۔

وزیراطلاعات فواد چوھدری کا بھی کیا کہنا ہے، وہ کبھی اپنی ذہنی اختراع الیکٹرانک ووٹنگ مشینز اور ای ووٹنگ مشینز کو فعال کرنے کی جلدبازی میں ہیں، کبھی کسی پر فتوے جاری کر رہے ہوتے ہیں،یہی وزیر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور یوٹیوب کو محدود کرنے کا سوچ رہے ہیں پھر اور انٹرنیٹ ووٹنگ کی بات بھی کرتے ہیں۔
اب تو حکومت نے پارلیمنٹ کے اختیارات بھی چھین لیے جس کا برملا اعلان کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات نے کیا،جب کہ دوسرہ بڑا بلنڈر الیکشن کمیشن کے اختیارات چھینے کا کیا گیا ہے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں باقی عمومی فیصلوں کے ساتھ یہ خصوصی فیصلہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں کون بولے گا اور کون نہیں بولے گا، یہ فیصلہ ہم کریں گے۔ یعنی پارلیمنٹ کی خودمختیاری، آزادی، فعالیت گئی تیل لینے، کسٹوڈین آف ہاؤس اسپیکر اپنے آئینی اختیار گھر چھوڑ کر آئیں، فیصلہ وزیراعظم کر رہے ہیں کہ 22 کروڑ عوام کے نمائندہ پارلیامنٹ کو کس طرح چلانا ہے۔ ایسا جنرل ضیاالحق کے گھٹنے کے نیچے چلنے والی پارلیمنٹ کے ساتھ بھی نہیں ہوا، پرویز مشرف کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعت ق لیگ کی جس پارلیمنٹ میں اکثریت تھی اس میں بھی وہ کچھ نہیں ہوا جو عمران خان کر رہے ہیں۔ عمران خان اب وزیراعظم کے ساتھ اسپیکر بن چکے ہیں، خیر اسپیکر کا چارج تو انہوں نے سال پہلے ہی لے لیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ کسی ملزم ممبر کے پراڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جائیں گے اور اس کے بعد پراڈکشن آرڈر جاری ہونا بند ہوچکے ہیں۔
کابینہ نے جو فیصلہ کیا پارلیمنٹ میں وہ ہی کچھ ہوا، نہ کم ہوا نہ زیادہ ہوا۔ پارلیمنٹ کو حکومتی وزرا اور ممبران نے میدان جنگ بنا لیا، اپوزیشن پر حملے ہوئے، گالم گلوچ کی گئی،سنجیدہ سمجھے جانے والے وزیر بھی سامنے آ گئے اور اپنی اصلیت دکھا دی۔ پارلیمنٹ کا پندرہ جون کا اجلاس اس کالک کا دن تھا جو دھونے سے نہیں اتر سکتی، اسپیکر کی بے بسی کا عالم بھی کمال کا تھا اگر انہیں آئینی، قانونی اختیارات کا تھوڑا بھی علم ہوتا تو وہ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوجاتے انہیں پارلیمنٹ کو یرغمال کرنے والی سرکار کا سہولتکار نہیں بننا چاہیے تھا۔
اب آتے ہیں دوسرے فیصلے پر جس کا انکشاف الیکشن کمیشن نے کیا ہے، تحریک انصاف سمجھتی ہے ان کے پاس فروغ نسیم، بابر اعوان،علی ظفر، ملیکہ بخاری جیسے بڑی قانونی دماغ ہیں ان دماغوں نے وزراعظم اور صدر پاکستان کی جو عزت افزائی کرائی ہے اس کے باوجود ان کے مشوروں پر عمل کیا جا رہا ہے، قومی اسمبلی نے دس جون کو اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر جس طرح قانون کی دھجیاں بکھیر کر قانونسازی کی اس میں ایک قانون الیکشن ایکٹ 2020ع میں ترامیم کا بھی شامل ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے اپنا نقطہ نظر یا رد عمل دے دیا ہے اس قانون کے تحت حکومت نے الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات چھیننے کی کوشش کی ہے، وہ اس طرح کہ قانوں کے تحت الیکشن کمیشن سے حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں کے اختیارات کو چھیین لیا گیا ہے، اس قانون سازی کے تحت سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا کہا گیا جو کہہ نہ صرف آئین بلکہ سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر جاری فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے، حکومت دھونس دھاندلی سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کروا کر اپنے حلقوں جانے سے بچنا چاہتی ہے یا سمندر پاکستانیوں کے ووٹوں سے کچھ مدد حاصل کرکے سیاسی طور پر جینا چاہتی ہے لیکن یہ سب کچھ اتنی عجلت میں نہیں ہو سکتا۔
اس قانونسازی پر الیکشن کمیشن نے اجلاس کرکے جارہ کردہ بیان میں بتا دیا ہے کہ اسیمبلی سے منظور شدہ قانون میں آئین کی شقوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے، الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات پر کدغن لگائی جا رہی ہے،اس بل کے ذریعے الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ انتخابی فھرستوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی، حلقہ بندیاں آبادی کے بنیاد پر نہیں رجسٹرڈ ووٹوں کے بنیاد پر کی جائیں۔سینیٹ میں اوپن بیلٹ استعمال کیا جائے۔یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہو رہا ہے جیسے پارٹی ختم ہونے والی ہے اور ثابت ہو چکا ہے کہ یہ کمپنی اب نہیں چلنی۔
kumbharibrahim@gmail.com

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے