کالم

پانی کی سیاست اور فواد چوہدری کے فتوے

جون 19, 2021 4 min

پانی کی سیاست اور فواد چوہدری کے فتوے

Reading Time: 4 minutes

پیپلز پارٹی کے چئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے حکومت کے ان الزامات کی تردید کردی جس میں بلاول بھٹو یا مراد علی شاہ کو قومپرست کہا گیا تھا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پانی کی تقسیم ہو ترقیاتی منصوبوں کی بات، صوبے کی بات اگر وزیراعلیٰ نہیں کرے گا تو کیا وہ جرمنی اور جاپان کی بات کرے گا، پھر اور صوبے کا مقدمہ اگر وزیراعلی نہیں تو کیا ٹرمپ آکر یہ مقدمہ لڑے گا؟

اصل میں بلاول بھٹو وفاقی وزیراطلاعات کی اس پریس کانفرنس پر رد عمل دے رہے تھے جس میں وزیر موصوف نے کہا تھا کہ بلاول پانی کی اور مراد علی شاہ ترقیاتی منصوبوں کی بات کرکے سندھ کارڈ کھیل رہے ہیں، وفاق کی نمائندہ پیپلز پارٹی قومپرستی کر رہی ہے۔
میں نے پہلے ہی ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قومپرستی کوئی جرم، گناہ کوئی برائی نہیں ہے،لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز قومپرست نہیں وفاق پرست جماعتیں ہیں اب تو دونوں جماعتوں کو اقتدار پرست جماعتیں ہی کہنا بہتر ہے کیوں کہ اب عوام کے نام پر سیاست کرکے ان ہی کو سیڑھی بنا کر اقتدار تک پہنچنا ان جماعتوں اولین مقصد ہے۔

سنتے آ رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی،یہ لازمی نہیں کہ وہ جنگیں دشمن سمجھے جانے والے ممالک کے بیچ میں ہوں، ایسی جنگیں ایک ملک کی ریاستوں یا صوبوں کے مابین بھی ہو سکتی ہیں۔
پانی اس ملک کا حساس معاملہ رہا ہے، دریا بیچنے والے آمر کو اس بات کا احساس ہی نہیں تھا کہ وہ مستقبل کو صحراء کر رہا ہے، اپنی زمین کو بنجر کر رہا ہے، پانی بیچنے سے لیکر اپنے شھریوں کو بیچنے تک سب دھندے ہمارے آمروں نے کیے لینے اعزازات سے سلامی میں ان کی تدفین ہوئی۔پانی جتنی حساس وزارت بھی جھوٹے حلف نامہ دینے والے ایک غیر سنجیدہ قسم کے وزیر کے حوالے کی گئی ہے ،پانی کی تقسیم جس ادارے یعنی ارسا کو دے کر دودھ کی رکھوالی کے لئے بلے کو بٹھا دیا گیا ہے۔
فواد چوھدری کو صوبے کے حقوق کی بات کرنے والے لوگ وفاق سے تعصب کرنے والے نظر آتے ہیں،لیکن سرکاری میڈیا اور فورم پر بیٹھ کر ایسی باتیں کرنے والے سے زیادہ متعصب کون ہو سکتا ہے؟ شاید وزیر موصوف نے آج کل وزیر افواہ سازی، وزیر غلط فہمیات، وزیر غلط بیانی، وزیر جھوٹ کھسوٹ،وزیر بھڑک بازی اور وزیر نعربیازی کی بھی چارج لے رکھی ہے، ہیلی کاپٹر 55 روپیہ فی کلومیٹر تیل پر چلانے کا سارا کریڈتان اسی وزیر کو جاتا ہے،یہ کہاں لکھا ہوا ہے صوبے اس کے وسائل، مسائل اور حقوق کی بات کرنا قومپرستی یا وفاق سے تعصب پرستی ہے، یہ سب اسلام آباد کو مضبوط بنا کر وسائل کے قبضہ برقرار رکھنے والے مفروضے ہیں۔۔پیپلز پارٹی کےبانی ذوالفققار بھٹو وفاق پرست تھے، بینظیر بھٹو چاروں صوبوں کی زنجیر تھی آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا،پیپلز پارٹی والے تو بس میں ہو تو سندھ کو بیچ کے بھی وہ وفاق کو بچانے کے چکر میں ہیں۔
وفاق کو چلانے کے لیے پانی سمیت تمام وسائل پر صوبوں سے اٹھنے والی آوازوں، شکوہ اور شکایات کو سننا اور حل کرنا پڑے گا۔ پانی کی تقسیم کا کردار ارسا اور سفید ہاتھی واپڈا ادا کرتے ہیں۔ پانی جیسے حساس معاملے پر بنائی گئی اتھارٹی کو اگر پنجاب کا ایریگیشن سیکریٹری، ارسا پنجاب کا ممبر ،وفاق میں بیٹھا کوئی جوائنٹ سیکریٹری یا ایڈیشنل سیکریٹری چلائے گا،پھر چھوٹے صوبوں کی بات نہیں مانی جائے گی اور ان کے پانی کے حق کو پاؤں کے نیچے روندے گا تو لڑائی نہیں تو شادیانے بجائے جائیں گے؟
صوبوں میں پانی کی تقسیم کو شفاف بنانے کے لیے 1991ع میں ایک معاہدہ ہوا،کس صوبے کو کتنا پانی ملے گا؟ وہ اس معاہدے کی پیرا نمبر دو میں درج ہے یعنی صوبوں کا حصہ طے ہے لیکن آج تک بڑے صوبے اور وفاق کی ملی بھگت سے نہ معاہدے پر عمل ہوا نہ ہی پانی کی شفاف تقسیم ہوئی۔
صوبوں اور وفاقی اداروں میں تنازعات کے حل کا آئنی فورم مشترکہ مفادات کی کونسل جب یہ معاملا شاھد خاقان عباسی کے دور میں سی سی آئی میں آیا تو انہوں نے اٹارنی جنرل کی سربراہی میں کمیٹی بنادی صوبوں نے بھی ہاں کردی، وہ شاید ان کی صدارت میں ہونے والا آخری اجلاس تھا، پھر انتخابات کے نتیجے میں سلیکٹڈ حکومت آ گئی، وزیراعظم عمران خان نے یہ معاملہ اٹارنی جنرل انور منصورکے حوالے کردیا۔
اس سے پہلے کہ اٹارنی جنرل کی رپورٹ پر بات کریں یہ بتانا ضروری ہے کہ ارسا نے پانی کے تقسیم کے لیے معاہدے میں دیے گئے فارمولا کو چھوڑ کر اتھارٹی کی منظوری سے پانی کی تقسیم کے لیے ایک سہ رخی( تھری ٹئیر) فارمولا بنا ڈالا اور تقسیم اس پر شروع کی تھی جس پر سندھ اور بلوچستان نے آواز بلند کی۔
اٹارنی جنرل انور منصور صاحب نے اس پر اپنی رپورٹ تیار کرکے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کردی اس رپورٹ کے مطابق ارسا کے بنائے گئے تھری ٹیئر فارمولا کا 91ع کے معاہدے اور ارسا ایکٹ میں کوئی وجود ہی نہیں، انہوں نے سفارش کی کہ صوبوں میں معاہدہ 1991ع کے پیرا دو کے تحت پانی تقسیم ہونا چاہیے۔
مشترکہ مفادات کے اس اجلاس میں فواد چوھدری اور عثمان بزدار نے اٹارنی جنرل کی اس رپورٹ پر عمل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس پر عمل ہوا تو ہم پنجاب میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ پھر وزیراعظم نے اس پر ایک اور ایکسپرٹ کمیٹی بٹھا دی معاملہ اب بھی لٹکا ہوا ہے۔
یعنی پانی کے معاملات کا حل سی سی آئی کے پاس ہے اس نے معاہدہ کیا اس پر عمل نہیں ہوا، جب اس کی تشریح کا وقت آیا تو سی سی آئی میں پنجاب کے ممبر فواد چوھدری اور عثمان بزدار رکاوٹ بنے۔اس وقت کسی نے ان دونوں پر قومپرستی کا الزام نہیں لگایا۔
فرصت ملے تو اپنا گریبان بھی دیکھ لے اے دوست،
یوں نہ کھیل میری بے بسی کے ساتھ
اوپر سے پنجاب حکومت نے اس پانی کے معاہدے کو کالاباغ ڈیم سے نتھی کردیا ہے، یہ بیان اب پرانا ہو چکا ہے جس میں انہوں نے 1991ع کے معاہدے کو اس لیے ناقابل عمل قرار دیا ہے کہ اس پر عمل تب ہوگا جب سسٹم میں پانی 114 ملین ایکڑ فٹ ہوگا، اس کا مطلب کہ جب تک اتنا پانی نہیں ہے تب تک تقسیم غیر قانونی انداز سے ہی چلے گی۔ اوپر سے یہ بھی فرمادیا کہ 114 ملین ایکڑ فٹ پانی تب آئے گا جب کالاباغ ڈیم بنے گا۔
kumbharibrahim@gmail.com

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے