جنسی جرائم، خان صاحب اور پاکستانی مُلا و لبرل
Reading Time: 4 minutesدنیا بھر میں چونکہ جنسی جرائم بڑھتے چلے جا رہے ہیں، اس لیے دنیا کے ہر ملک میں ہی ان پر تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ شاید ایک نہ ختم ہونے والی بحث ہے۔ لیکن کم از کم جس بات پر سب متفق ہیں وہ یہ کہ مختلف جگہوں پر، مختلف اوقات میں، مختلف حالات کے تحت وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔
ہمیں چونکہ پیچیدگیاں زیادہ پسند نہیں ہیں۔ اس لئے ہم ہر مسئلے کو اوورسمپلیفائی کر کے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنسی جرائم کی بڑی وجوہات میں طاقت اور غلبے کی خواہش، انتقام، اذیت پسندی، پورنو گرافی کی ایڈکشن اور جنسی فرسٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔
ان میں سے ہماری پسندیدہ وجہ جنسی فرسٹریشن ہے۔
ہم کمال مہارت سے اپنے ہاں ہونے والے اس نوعیت کے تمام جرائم کو فرسٹریشن کی چھتری تلے سمو دینے پر قادر ہیں۔ یہ فرسٹریشن والا بیانیہ بنیادی طور پر ہمارے لبرلز کی ایجاد ہے اور اس سے ان کے اتنے لگاؤ کی بھی چند ٹھوس وجوہات ہیں۔
لیکن آخر یہ جنسی گھٹن ہے کیا بلا؟
ماہرین نفسیات، جو آپ کو حاصل ہے اور جو آپ کی خواہش ہے، کے درمیان فرق کو جنسی گھٹن کہتے ہیں۔ یعنی جو کچھ آپ کو دستیاب ہے اگر وہ آپ کی تسکین کے لیے ناکافی ہے تو آپ جنسی گھٹن کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہرین اس گھٹن کی جو وجوہات بتاتے ہیں، وہ بہت سی ہیں، مندرجہ ذیل زیادہ اہم ہیں۔
1- جسمانی نقص: یعنی آپ کسی بیماری، کمزوری، جسمانی یا نفسیاتی وجوہات کے تحت اپنی خواہش کو اپنی خواہش کے مطابق انجام دینے سے قاصر ہیں۔
2- مخصوص شخصیت کی خواہش: یعنی کہ
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
3- مخصوص طریقہ کار کی خواہش: مثلاً اگر آپ اپنی صنف میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں مگر سماجی جبر کے تحت آپ کو صنف مخالف پر اکتفا کرنا پڑے۔ مگر یہ صرف ایک مثال ہے، مخصوص طریقہ کار کی خواہش زیادہ وسیع مفہوم رکھتی ہے۔
4- ہارمونز کی زیادتی۔ طبی اصطلاح میں بعض لوگ ہائپر سیکشوئل کہلاتے ہیں۔ جنسی ہارمونز کی زیادتی انہیں کسی ایک پارٹنر یا کسی ایک طریقہ کار پہ مطمئن نہیں ہونے دیتی۔
5- سماجی جبر: آپ کا عائلی و سماجی نظام اس طور پہ مرتب ہے کہ اس میں آپ کو اپنی خواہشات کی تسکین کے مناسب ذرائع میسر نہیں ہیں۔
اب یہ آخری وجہ ٹھک سے آپ کے دل کو جا کے لگی ہوگی۔ کیونکہ ہمارے ہاں بڑی ہوشیاری سے پورا بیانیہ ہی اس کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔
دیگر تمام وجوہات کو انتہائی چالاکی سے پرے کر کے، آپ کو بتایا جاتا ہے کہ یہاں جنسی جرائم کی واحد وجہ جنسی گھٹن ہے۔ اور جنسی گھٹن کی واحد وجہ ہمارا عائلی و سماجی نظام۔
اس منطق کے پیچھے جو اصل منطق کارفرما ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر کسی طرح آپ اپنے اس دقیانوسی، فرسودہ، عائلی و سماجی نظام سے چھٹکارا پا لیں۔ فرد کو باہمی رضامندی سے آزادانہ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دے دیں تو قوم جنسی گھٹن سے نجات پا کر ترقیوں اور کامرانیوں کی شاہراہ پہ بگٹٹ بھاگنے لگے گی۔
افسوس کہ حقیقت اتنی سادہ اور آسان نہیں ہے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ساٹھ کی دہائی آزادیوں کا عشرہ تھی۔ اسی عشرے میں رنگ و نسل کے امتیاز کے خلاف تحریک عروج پہ پہنچی۔ اسی دور میں جنسی تعلقات پر پابندیوں کے خلاف بے مثال کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ یعنی لگ بھگ پچاس برس سے امریکا میں عوام اس جنسی گھٹن سے مکتی پا چکے ہیں، پاکستان میں جس کا شکار ہو کر میں اور آپ دیواروں سے ٹکراتے پھرتے ہیں۔
نتیجہ کیا نکلا؟
دو سال قبل یعنی 2019 میں امریکا میں ریپ کے ایک لاکھ چھ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہی تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ امریکا میں رپورٹڈ واقعات اصل واقعات کا 34 فیصد ہوتے ہیں۔ یعنی ریپ کے اصل واقعات لگ بھگ چار سے پانچ لاکھ ہوں گے۔ رین (Rainn) کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی برس تمام جنسی نوعیت کے رپورٹڈ جرائم پانچ لاکھ سے زائد تھے۔ اور رپورٹنگ کی شرح 25 فیصد کے لگ بھگ۔
یعنی امریکا میں اس سال بیس لاکھ جنسی جرائم کا ارتکاب ہوا جن میں سے پانچ لاکھ ریپ کیسز تھے۔
یہ ہر اعتبار سے انتہائی خوفناک اعدادوشمار ہیں اور امریکی حکومت، بہت سے تھنک ٹینکس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مختلف طریقوں سے اس پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
میں ان میں سے ہرگز نہیں جو مغربی ممالک کے ریپ سٹیٹسٹکس سے حظ اٹھاتے ہیں۔ لیکن میں ان میں سے بھی ہرگز نہیں۔ جو اس جنسی گھٹن والے جھانسے میں آ جائیں۔
وہ ملک جو پوری دنیا میں انفرادی حقوق اور جنسی آزادیوں کا امام ہے۔ وہاں 1998 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ریپ ہونے والی خواتین کی تعداد ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد تھی۔ بائیس تئیس برس میں یہ ڈھائی تین کروڑ تو ہو ہی چکی ہوگی۔ یعنی سترہ کروڑ امریکی خواتین میں سے اب تک اٹھارہ فیصد جنسی درندوں کا شکار ہو چکی ہیں۔
ہمارے ہاں لبرلز امریکہ یا یورپ سے اعدادوشمار اٹھانے پر بھی سخت معترض ہوتے ہیں۔ اور ان کا اعتراض سمجھ میں آتا ہے۔ مطلب یہاں جس بنیادی استدلال پر آپ نے پورا بیانیہ ترتیب دے رکھا ہے۔ امریکا پہنچ کر وہ بنیادی استدلال ہی منہ کے بل جا گرتا ہے۔
مکرر عرض ہے کہ سماجی جبر، جنسی گھٹن کی بہت سی وجوہات میں سے صرف ایک وجہ ہے۔ اور مکرر عرض ہے کہ جنسی گھٹن، جنسی جرائم کی درجنوں وجوہات میں سے محض ایک وجہ۔
محض آگ لگانے کیلئے مثال دے رہا ہوں کہ پورنو گرافی کو دنیا بھر میں خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتیوں کی ایک بڑی وجہ گردانا جاتا ہے۔ لیکن ہمارا وزیراعظم اگر یہ بات کرے تو یہی لبرل حضرات و خواتین اس کا ٹھٹھا اڑانے لگتے ہیں۔ کیونکہ پورن دیکھنا ان کے نزدیک بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ہے۔
ان لوگوں کا مسئلہ جنسی جرائم نہیں ہیں۔ ورنہ انہیں جنسی گھٹن کے علاوہ بہت کچھ دکھائی دیتا۔ ان لوگوں کا مسئلہ ہمارا خاندانی و سماجی نظام ہے۔
ایک وقت تھا جب میں پاکستانی لبرلز سے خیر کی امید رکھتا تھا۔ اب مجھے پاکستانی ملا اور پاکستانی لبرل ایک جیسے لگتے ہیں۔