کالم

بڑے ایوانوں پر مادری زبانوں کے دروازے بند کیوں ہیں؟

جون 27, 2021 4 min

بڑے ایوانوں پر مادری زبانوں کے دروازے بند کیوں ہیں؟

Reading Time: 4 minutes

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں کچھ دن پہلے حزب اختلاف کے ایک رکن جاوید شاہ جیلانی نے سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی اور سرائیکی زبان کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا، اسی اجلاس میں سرائیکی وسیب سے رکن مہر ارشاد نے سرائیکی زبان میں خطاب شروع کیا،تو پریزائیڈنگ افسر امجد خان ولد شیر افگن خان نے ان کو روک کر اردو میں بات کرنے کو کہا، روکنے والے کی اپنی مادری زبان بھی سرائیکی ہے۔

مہر ارشاد نے اردو میں تقریر کرنے سے پہلے ایک سچ کہہ دیا کہ "جو ماں بولی کو بُھل ویندا ہے وہ اپنی ماں کو بھل ویسیں”۔ جو اپنی مادری زبان کو بھولتا ہے وہ اپنی ماں کو بھی بھول جائے گا۔

گھوٹکی سے منتخب رکن سردارمحمد بخش مہر نے اپنی تقریر کا اختتام سندھی زبان میں کرتے ہوئے کہا کہ ” مان سندھ مان چونڈیل ممبر آھیان ھن بجیٹ کی رد کرے واک آئوٹ تھو کریان”۔مطلب گھوٹکی کے منتخب ممبر کی حیثیت سے میں اس بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے واک آئوٹ کرتا ہوں، اسپیکر کی کرسی پر براجمان متحدہ کے ممبر صابر قائمخانی نے بھی انہیں سندھی میں جواب دیا۔

بجٹ اجلاس میں زبانوں پر طنز کا سلسلہ بھی حکومتی وزیر نے ہی بلاول بھٹو کی تقریر کے جواب میں شروع کیا ، بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر کے ابتدائی کلمات انگریزی زبان میں ادا کیے تو انرجی کے وزیر محترم نے کہا کہ "منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے سے دامن پر لگے کرپشن کے داغ دھل نہیں سکتے۔” جس وزیر صاحب کو انگریزی والی تقریر بری لگ رہی تھی اس کی اپنی اردو بھی کچی نکلی، وہ جائے گا کو جاوے گا اور آئے گا کو آوے گا بول رہے تھے۔

قومی،صوبائی، علاقائی،غیر علاقائی، سرکاری،غیر سرکاری، دفتری، غیر دفتری، مقامی، غیر مقامی، مادری غیر مادری زبانوں کا یہ تضاد بھی پاکستان کا ہم عمر ہے۔ 21 مارچ 1948ع کو جناح صاحب نے پاکستانی بنگال کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اردو کو قومی زبان کرنے کا اعلان کیا تو وہاں فسادات بھڑک اٹھے، کیوں کہ پاکستان کے ایک بانی صوبے کے بنگالی عوام کا مطالبہ تھا کہ ان کی ماں بولی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے،بنگالیوں پر بھی باقی قوموں کی طرح اردو زبان ٹھوسنے کی کوشش کی گئی،دوسری قوموں نے تو یہ کڑوا گھونٹ پی لیا، لیکن بنگالی اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔اپنی زبان کو چھوڑنا بہت مشکل ہے، اور اتنا مشکل کسی زبان کو ٹھوسنا بھی ہے، زبان تو کیا زبردستی کی تو دین کے معاملے میں بھی اجازت نہیں۔

اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال 21 فروری کو مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے جسے ہمارے ملک میں کوئی سرکاری طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس عالمی دن کی شروعات کیسے ہوئی وہ سب کو علم ہے کہ سن 1952ع اسی تاریخ یعنی 21 فروری کو ڈھاکا میں بنگالی بھایوں نے بنگلا بھاشا کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے احتجاج کیا تو گولی چل گئی، جس کے نتیجے میں آٹھ طلبا جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے،پھر ان تمام حربوں اور حرکات کا نتیجہ 16 دسمبر 1971ع کو مل گیا، لیکن ریاست مادری زبانوں یا ان قوموں کی زبانوں کے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئی جنہوں نے اس ملک کو بنایا تھا، نہ ہی زبان کی حساسیت کو سمجھاگیا۔

ریاست سمجھتی ہے کہ مادری زبانوں کی ترقی اور ترویج سے قومی اتحاد اور ملی یکجھتی کو نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ ایسے سرکاری مفروضے اور خدشات ہیں جن کی بنیاد پر عوام کو ڈنڈے کے زور پر ایک ہونے کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن ان معاملات میں کوئی سچ بولتا ہے تو غداری کا سرٹفکیٹ ہاتھ میں تھمائے جاتے ہیں۔
قوم یا ملت ریاست سے بنتی ہے، ریاست آئین اور اصولوں کے ساتھ بنتی ہے۔پہلے آئین کو تو عزت دینا سیکھیں اس کے بعد ایک قوم کی بات کریں، ہم پہلے دن سے حقائق کو مسترد کرکے کیموفلیج پر یقین رکھنے والی ریاست بن چکے ہیں۔

جب یہ کہا جائے کہ بڑے ایوانوں میں مادری زبان نہیں بولی جا سکتی تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ ایوان کتنے کاغذی ہیں،ان ایوانوں کے بڑے عہدوں پر بیٹھنے والوں پر یہ شرط عائد کی جاتی ہے کہ آپ نے اپنی مادری زبان نہیں بولنی۔
میں ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں، جب آصف علی زرداری ایوان صدر کے مقیم تھے تو انہوں نے ہمارے ایک صحافی کو انٹرویو دینے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ انہیں سندھی زبان کے چئنل کو انٹرویو دیتے ہوئے سندھی زبان بولنا پڑتی۔

مشرف سے پی سی او حلف لے کر ذاتی وفاداری نبھانے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے ان دنوں میں میری ایک سینئر صحافی کے ساتھ ملاقات ہوئی،میں ان سے سندھی زبان میں بولے جا رہا تھا وہ اردو میں جوابات دے رہے تھے، وہ میرے ساتھی صحافی کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ میں صرف سندھی ہوں۔
سابق اسپیکر میڈم فہمیدہ مرزا بھی جب تک اسپیکر کی کرسی پر رہیں، اپنے دفتر میں سندھی زبان کے لیے دروازہ بند رکھے، ایک مرتبہ تو ایک افسر نے ہمیں رو کر بتایا کہ میڈم نے مجھے اس لیے ڈانٹا کہ میں سندھی میں بات کرنا چاہتا تھا۔

بڑے عہدے رکھنے والے اردو کا استعمال صرف اپنی پاکستانیت بچانے کے لیے کرتے ہیں،جتنا بڑا عہدہ اتنا زیادہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے اوپر سندھی، پنجابی، بلوچ، سرائیکی اور پشتون ہونے کا ٹھپا نہ لگ جائے،کسی کو اردو پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے یہ غالب، میر تقی میر،ابراہیم ذوق،ادا جعفری،ساحر، جون ایلیا،جاوید اختر، فراق گورکھپوری سمیت سینکڑوں اعلیٰ شان شاعروں کی زبان ہے،کرشن چندر، منٹو،قرت العین حیدر، ابن سفی،شوکت صدیقی،مرزا حادی رسوا،عصمت چغتائی،ابن انشا،مشتاق یوسفی،بشیر احمد، مظھر الاسلام سے لے کر ماھا ملک تک سب نے اردو زبان کے افسانہ نویس اور ناول نگار ہماری آنکھوں کے تارے ہیں،لیکن تلخ حقیقت یہ اس زبان کو قومی درجہ دیا گیا جس کے بولنے والے 7 فیصد ہیں، جب اردو کو یہ مقام ملا تب اردو بولنے والے تین فیصد بھی نہیں تھے،یہ ملک جب نہیں تھا تب یہاں وہ قومیں آباد تھیں ان کی زبانیں بھی تھیں،لیکن ان کو آج تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
یہ طے ہے کہ جس ممبر کو اردو زبان نہیں آتی اس کا ان بڑے ایواں میں آنے کا کوئی کام نہیں کیوں کے ان ایوانوں میں مادری زبان میں بولے جانے والا ایک لفظ بھی رکارڈ کا حصہ نہیں بنتا، اس لیے نامزدگی فارم بھرنے کے لیےسے پہلے امیدواروں کو اردو یا انگریزی کی ٹیوشن لینا چاہیے۔
kumbharibrahim@gmail.com

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے