چین، افغانستان اور پاکستان میں دو ہنسوں کی جوڑی
Reading Time: 2 minutesدنیا کے تقریباً ہر قابل ذکر ملک کو دہشتگردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ اس لیے اب کسی ملک میں رونما ہونے والے دہشتگردی کے واقعے کو اس ملک کے خلاف کوئی بھی استعمال نہیں کرتا۔ ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے اور تعاون کی پیشکش۔ لیکن یہ ہمدردی کا اظہار اور تعاون کی پیشکش اسی کو ہوتی ہے جو کم سے کم دہشتگردی کا اعتراف تو کرے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چینیوں پر پاکستان میں حملہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین سے باہر چینی سب سے زیادہ پاکستان میں نشانہ بنے ہیں۔ چینی حکومت اور عوام نے کبھی بھی کسی سانحے کو پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کو استعمال نہیں کیا۔ خاموش رہے، تحقیقات کا مطالبہ کیا اور ڈٹ کر ساتھ دیتے رہے۔
اس بار انوکھا یا مختلف صرف یہ ہوا ہے کہ سانحے کے بمشکل آدھ گھنٹے کے اندر اندر اسے دہشتگردی ماننے ہی سے انکار کر دیا گیا۔ حادثے کا روپ دینے کی کوشش ہوئی اور وزیر خارجہ کے دفتر سے اسے حادثہ قرار دیا گیا۔ جب صاف محسوس ہوا کہ اتنی بڑے جھوٹ کو تو مقامی سطح پر بھی پذیرائی نہیں مل رہی تو عالمی سطح پر کون مانے گا؟ تب جا کر بارودی مواد ملنے اور تخریب کاری کا امکان ظاہر کرنے کی باتیں سامنے آئیں۔
اسی طرح یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانیوں کو پاکستان کے اندر نشانہ بنایا گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان سے باہر افغان سب سے زیادہ پاکستان میں نشانہ بنے ہیں۔ چین کے برعکس افغانستان نے ہمیشہ ایسے واقعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم ایسے واقعات کا سرے سے ہی انکار کر کے بیٹھ جائیں؟
افغان سفیر کی صاحبزادی کل دن ڈیڑھ بجے اسلام آباد کی مصروف ترین مارکیٹ سے اغوا ہوتی ہیں۔ قریباً چھ گھنٹے بعد بندھے ہاتھ پاؤں اور دھمکی آمیز پیغام کے ساتھ انہیں بلیو ایریا پھینک دیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیں خوش فہمی یہ لاحق ہے کہ ہم دنیا سے یہ خبر چھپا سکتے ہیں، کم از کم اپنے عوام سے تو ضرور ہی چھپائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ آج جب تک افغانستان کا دفتر خارجہ ایک سخت الفاظ پر مشتمل مذمتی اور احتجاجی بیان جاری نہیں کرتا ہم اسلام آباد رہنے والوں کو بھی اس قیامت کی خبر نہیں ہو پاتی جو اس بہن پر گزری ہے۔
آپ صرف یہ سوچیں کہ اگر یہ خبر ہمارے ٹی وی چینلز سے منظرعام پر آتی۔ پاکستانی ادارے تحقیقات کا اعلان کرتے، سفیر کی بیٹی کا بہترین پروٹوکول کے ساتھ سی ایم ایچ میں علاج کروایا جاتا۔ وزیراعظم یا کم سے کم وزیر داخلہ اس واقعے کی فوری مذمت کرتے۔ تو کیا پھر بھی اتنا ہی منفی ردعمل ہوتا جتنا اب ہوا؟ یقیناً نہیں۔
اگر چینیوں کو یہ تاثر نہ ملتا کہ ہم داسو میں ان کے درجن بھر شہریوں کی ہلاکت پر مٹی ڈالنے کے چکر میں ہیں تو کیا پھر بھی وہ اپنی پندرہ رکنی تحقیقاتی ٹیم بھجواتا؟ کیا پھر بھی چینی کمپنی اپنے انجینئرز واپس وطن بھجوا کر پاکستانی مزدوروں کو گھر بھجوا دیتی۔ کیا تب بھی ساڑھے چار ارب ڈالر کا یہ منصوبہ یوں غیر معینہ مدت کے لیے کھٹائی میں پڑتا؟ اور جب داسو ڈیم کھٹائی میں پڑ گیا تو آپ چین سے دس گیارہ ارب ڈالر ایم ایل ون پر لگانے کی فرمائش کس منہ کے ساتھ کریں گے؟
دو ہنسوں کی جوڑی نے پاکستان کو تین سال کے دوران ایسی کھائی میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے میں ہمیں شاید اب 30 سال لگ جائیں۔