میرے اغوا کی پہلی سالگرہ
Reading Time: 12 minutesاکیس جولائی, میرے اغوا کی پہلی سالگرہ اور بڑی عید کا دن پلک جھپکتے میں گذر گیا، کہاں سر پر کالا غلاف، آنکھوں پر پٹی اور منہ پر لگی ٹیپ، کمر پر ہتھکڑیوں میں بندھے ہاتھوں کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں گذر رہا تھا اور کہاں اب ایک نئی زندگی کا بھی ایک سال کم ہو گیا، شاید میرے اغوا کاروں کو اب بھی وقت کے تیزی سے گذرنے کا احساس نہیں جو فرعون کی مانند انسانوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے سے باز نہیں آ رہے، وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر فرعون کے محل میں ہی ایک موسی کی پرورش کرتا ہے۔
آج بھی عام شھریوں اور صحافیوں کو تسلسل کے ساتھ جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے وزیر اعظم، وفاقی وزرا اور منصف حضرات مصلحت اور غفلت کا لبادہ اوڑ کر لمبی تان کر سو رہے ہیں۔
اکیس جولائی ۲۰۲۰ کی صبح اپنے گھر بہارہ کہو سے اہلیہ کو ان کے سکول چھوڑنےکے لیے نکلا تو ذہن میں دو سال کی بیروزگاری اور مالی مشکلات کا ایک غبار تھا جو کافی عرصے سے تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، ہم صحافیوں کے مسائل آخر ہوتے ہی کیا ہیں- گھر کا کرایہ، بچوں کی سکول فیسیں، گاڑی کے پیٹرول کے اخراجات، گھر کا کچن، بنک کی قسطیں اور دیگر لازمی اخراجات جن سے دوستوں، فیملی اور برادری میں سفید پوشی کا بھرم رہ سکے، والد صاحب کا ورثے میں چھوڑا جوائنٹ فیملی کے گھر کا ایک پورشن بہت بڑا سہارا بنا، 26سال کی صحافت کے دوران “میڈیا والے پلاٹ” کے لیے بھی اپنے یونین لیڈروں کو بولنے کی ہمت نہ ہوئی، بس اپنے کام یعنی صحافت کو خوب انجوائے کیا، دو سال کی بیروزگاری کے دوران اللہ تعالی کے بعد اپنی اہلیہ، بہن بھائیوں، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے بہت قریبی دوستوں اور چند صحافی رفقا کی مدد سے میرا نظام ہستی چلتا رہا۔ اب یو ٹیوب نے کسی حد تک سہارا دیا ہے اور اس پلیٹ فارم پر بھی حکومت کی بُری نظریں ہیں-
اکیس جولائی ۲۰۲۰ کی صبح جس 16 برس پرانے ماڈل کی کار پر میں گھر سے اہلیہ کے سکول کی جانب روان دواں تھا وہ گاڑی بھی ایک یونیورسٹی کے ہی فرشتہ و درویش صفت کلاس فیلو نے محض ایک لاکھ روپے ایڈوانس پر مجھے دے رکھی تھی اور باقی چار لاکھ روپے سہولت کے مطابق ادا ہونے تھے، اس روز ایک اور یونیورسٹی کے کلاس فیلو سے گیارہ بجے کی ملاقات طے تھی، سکول کے لیے اترتے وقت اہلیہ نے ڈیوٹی لگائی کہ ہاؤس ہائرنگ کے سلسلے میں ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کو کچھ کاغذات واٹس ایپ کرنے ہیں، میں نے اہلیہ کی فائل سے متعلقہ اہلکار کو کچھ دستاویزات بھیجے اور پھر اپنے میسیجز چیک کرنا شروع ہو گیا، بعد میں میرے ساتھ ہونے والے واقعے کی سکول کی تقریباً پندرہ منٹ کی نجی سی سی ٹی وی ویڈیو میں مزید انکشاف ہوا کہ مجھے اغوا کرنے والے چند اہلکاروں نے پہلے میری گاڑی کے گرد پیدل ہی چکر لگائے، ایک نیم گنجا ماسک لگا شخص جونئیر سکول کے گیٹ اور میری گاڑی کے بیچ سے ہوتا ہوا لال مسجد والی مین آبپارہ روڈ (جو اس وقت خاردار تاروں سے بند تھی) کی طرف سینئیر سکول کے مین گیٹ کی جانب گیا، سینئیر سکول کے مین گیٹ کے سامنے ہی لگی خاردار تار سے سکول کی سڑک اور آبپارہ روڈ کے بیچ راستہ بند کیا گیا تھا، اور قریب ہی لال مسجد میں انتظامی کنٹرول کے تنازع کے باعث یہاں پولیس کے اہلکار باقاعدگی سے تعینات رکھے جاتے تھے۔
تو جناب وہ نیم گنجا شخص میری گاڑی اور جونئیر سکول گیٹ کے بیچ سے گذرتے ہوئے تقریباً دو سو گز لال مسجد کی جانب سینئیر سکول گیٹ کے سامنے لگی خار دار تاروں کی جانب گیا اور چند منٹ بعد اسی راستے واپس آتا بھی دیکھا جا سکتا ہے، اس کی واپسی کے کچھ منٹ بعد ہی سینئیر سکول گیٹ کے سامنے لگی خار دار تار پر تعینات دو پولیس اہلکاروں کو اپنی ڈیوٹی والی جگہ چھوڑ کر اسی راستے میری گاڑی کے پاس سے گذرتے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے، ایک شخص مسلسل میری گاڑی کے عقب میں درخت کے سائے تلے موبائل پر مصروف نظر آ رہا ہے اور وقوعے سے عین پہلے وہ بھی چلا جاتا ہے۔
مسلح اور باوردی اغوار کاروں نے سینئیر سکول گیٹ کے سامنے لگی خاردار تاروں پر تعینات جس جگہ سے بظاہر پولیس اہلکاروں کو جگہ چھوڑنے کا حکم دیا وہ جگہ سینئیر سکول گیٹ کے اوپر لگے پرائیوٹ ویڈیو کیمروں کے براہ راست زد میں تھی اور جس میں ان پولیس اہلکاروں اور نیم گنجے اغواکار کے بیچ رابطے اور پھر پولیس اہلکاروں کے جگہ چھوڑنے اور پھر اسی خاردار تار کو ہٹا کر اغوا کاروں کی گاڑیوں اور ایک ایمبولنس کے داخلے کا واضح ثبوت موجود تھا۔
پولیس سارے میڈیا پر چلنے والی جونئیر سکول کے گیٹ کی میرے اغوا کی ویڈیو تو مجبوراً ریکارڈ پر لے آئی مگر سینئیر سکول گیٹ کے سی سی ٹی وی ویڈیو جان بوجھ کر فوری طور پر حاصل نہ کی بلکہ پہلی اور آخری جے آئی ٹی اجلاس میں پولیس تفتیشی تو سینئیر سکول گیٹ کی کسی ویڈیو کے وجود سے ہی انکاری ہو گیا، آئی ایس آئی اور دیگر محکموں کے افسران کی موجودگی میں سینئیر سکول گیٹ کی ویڈیو متعلق سوال پر پولیس تفتیشی نے کہا اس گیٹ پر تو کیمرے ہی نہیں لگے ہوئے تھے۔ میں نے بتایا کہ میں روز اس سکول میں آتا ہوں اوراس گیٹ سے اترے ہوئے کیمروں کی تاریں اب بھی وہاں لٹک رہی ہیں، ویسے بھی کیمروں کے بغیر سینئیر سکول پرنسپل آفس کا “ڈی وی آر “ اور اس میں ان کیمروں کی پچھلے تیس دن کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے، اس پر پولیس تفتیشی نے بڑے بے اعتنائی سے کہا کہ چلو پھر وہ ریکارڈ بھی لے لیتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی یہ میٹنگ وقوعے کے تقریباً چالیس دن بعد ہو رہی تھی۔ سینئیر سکول کی اس ویڈیو کا آج تک پتہ نہیں چلا اور نہ ہی اس کا سپریم کورٹ کے سامنے کسی پولیس رپورٹ میں ذکر ہے باوجود اس کے کہ پولیس نے بعد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سامنے سینئیر سکول کے کیمروں اور ویڈیوز کو بھی قبضے میں لینے کا اعتراف کیا تھا، میرے اغوا کو “مبینہ اغوا” کہنے والے انتہائی معزز ججوں کو اب ایک سال بعد بھی اس واقعے پر اپنی سوموٹو کارروائی کو آگے بڑھانے کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔
تو جناب وقوعے سے چند لمحے پہلے کی جانب واپس آتے ہیں، میں ہاؤس ہائرنگ کے حوالے سے کچھ کاغذات اہلیہ کے ڈائریکٹوریٹ میں واٹس ایپ کر رہا تھا کہ اچانک کراچی سے ایک فون کال آئی، کوئی بتا رہا تھا کہ وہ میرے گاؤں کا ہے اور یہ کہ کوئی “سرکاری افسر “ مجھے جانتا ہے اور سلام بول رہا ہے اور پھر اچانک کال کٹ گئی یا کاٹ دی گئی، میں تھوڑا کنفیوز ہوا کہ کال اچانک کٹ کیوں گئی یا کاٹ دی گئی، ٹائم پر نظر پڑی تو تقریباً سوا گیارہ بجنے والے تھے اور میں نے اپنے یونیورسٹی والے دوست کے پاس پہنچنا تھا، میں جلدی میں گاڑی سٹارٹ کرنے لگا تو اچانک ایک سفید ٹویوٹا ویگو ڈالا سامنے سے آ کر میری گاڑی کے سامنے رکا اور اس میں سے ایک نیم گنجا شخص کورونا ماسک اور سفید دستانے پہنے میری جانب بڑھا اور ساتھ ہی گاڑی کا دروازہ کھول کر نام پوچھا اور زبردستی گاڑی سے باہر نکال لیا اسی اثناُ میں دوسری پرائیویٹ کاریں قریب آ کر رکی جن میں سے انسداد دھشت گردی کے باوردی اور مسلح افراد چند دوسرے سویلین لباس میں ملبوس لوگوں کے ہمراہ مجھے پکڑ کر ایک کار کی جانب دھکیلنا شروع ہو گئے۔ میں نے ان سے شناخت مانگی اور بلند آواز سے پوچھا کہ میرا جرم کیا ہے، کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے، میرے گرفتاری کے وارنٹ کہاں ہیں؟ جواب کی بجائے مجھے زبردستی کھینچ کر ایک کار کے اندر ڈالنے کی کوشش جاری رکھی گئی، جونئیر سکول گیٹ کی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس سب واقعے کو سکول گیٹ کے بیچ کھڑے سکول کا چوکیدار مسلسل دیکھ رہا تھا جو ایکشن کے دوران بھی مسلسل موبائل فون پر کسی سے رابطے میں تھا، مگر سپریم کورٹ میں پیش کردہ پولیس رپورٹوں میں انتہائی معزز آئی جی پولیس اسلام آباد نے انتہائی معزز ججوں کو بار بار گمراہ کیا (وہ بظاہر گمراہ ہوئے بھی) کہ واقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں۔ معلوم ہوا کہ سکول چوکیدار کا فون قبضے میں لے کر اس کو کافی دیر تھانہ آبپارہ میں بٹھایا گیا اور کئی گھنٹوں بعد چھوڑا گیا، چوکیدار کے فون کا ریکارڈ بھی حاصل نہیں کیا گیا، مسلح باوردی اغوا کار افراد میں سے دو تو جونئیر سکول کی دیوار کے اندر میرے پھینکے ہوئے موبائل فون کو بھی واپس لینے گیٹ پر آئے جو ویڈیو میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں، میری اہلیہ گیٹ سے اندر موجود باہر ہونے والے واقعے سے بے خبر تھی اور سکول چوکیدار جو مجھے اور میری گاڑی کو اچھی طرح جانتا تھا اس نے بھی تقریباً دو گھنٹے تک اہلیہ کو واقعے سے بے خبر رکھا اور بعد میں پوچھنے پر بتایا کہ میری گاڑی گیٹ سے باہر کھڑی ہے، اہلیہ نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے گیٹ کے اندر فاصلے سے دیکھا کہ پولیس کسی شخص کا پھینکا موبائل گیٹ پر مانگنے آئی اور اس کے ساتھ کھڑی ایک ساتھی ٹیچر نے وہ موبائل پولیس والے کو واپس تھما دیا، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا، وہ موبائل آج تک واپس نہ ہوا ہے، بلکہ جے آئی ٹی کے واحد اجلاس سے پہلے مشورہ دیا گیا کہ “فائنڈ مائی آئی فون” ایپ سے موبائل کی لوکیشن مل جائے گی، جے آئی ٹی کو میں نے بتایا کہ کوشش کی گئی مگر فون کی بیٹری ڈیڈ ہونے کا میسج آتا ہے، میں نے کہا کہ اب فون چارج ہو گا تو پتہ چلے گا نا۔
خوش قسمتی سے میرا دوسرا موبائل فون میری گاڑی میں پڑا محفوظ رہا جس کی مدد سے میرے بیٹے نے ٹوئٹر پر میرے اغوا ہونے کی خبر عام کر دی اور دوستوں کو مطلع کیا۔ آج تک ملزمان کی شناخت کے لیے کوئی باتصویر اشتہار تک نہ نمایاں طور پر شائع کیا گیا، سکول کے پہلو میں لال مسجد کے سامنے والی آبپارہ کی مین روڈ طویل عرصے سے بند تھی جہاں پولیس اہلکار مستقل خیمہ لگا کر بیٹھے تھے، اس حساس علاقے کی سیف سٹی فوٹیج بھی آج تک ریکارڈ پر نہ لائی گئی، اسی راستے سے اغواکاروں کی گاڑیاں اور ایک سرکاری نمبر پلیٹ لگی ایمبولنس داخل ہو کر وقوعے کا باعث بنی۔
سیف سٹی فوٹیج آج تک شکایت کنندہ کو فراہم نہ کی گئی حتی کہ اس کے لیے انفارمیشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے دی گئی درخواست پر جو حکم وزارت داخلہ کو دیا تھا اسے بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔
اسلام آباد پولیس اور جرائم کی تفتیش سے جڑے تمام ادارے اس وقت خفیہ اداروں کے ہاتھ یرغمال بنے ہوئے ہیں،
اغوا کی پندرہ منٹ کی مکمل ویڈیو کو فارنسک کے لیے نہیں بھیجا گیا، میری بازیابی کی جگہ سے میرے سر پر چڑھایا غلاف، آنکھوں پر بندھی پٹی، منہ پر لگی ٹیپ، سب برآمد ہو گیا مگر ان کے فنگر پرنٹس رپورٹ کا آج تک پتہ نہیں چلا، بد دلی اور انتہائی غیر پیشہ وارانہ طریقے سے ان شواہد کو رہائی کی جگہ سے اکٹھا کیا گیا (جس عمل کی ویڈیو “اے کیو ایس لائیو” نے بھی دکھائی) اور ان میں سے بھی سب سے اہم ثبوت یعنی جائے بازیابی سے برآمد شدہ میرے منہ پر لگائی گئی ٹیپ کو ریکارڈ سے غائب کر دیا گیا ہے جو اس خط سے عیاں ہے جس میں موقعے سے اکٹھے کیے گئے شواہد کو لاہور کی لیباریٹری میں فنگر پرنٹس کے لیے بھیجا گیا، خط میں تین اہم شواہد میں سے منہ پر بندھی برآمد شدہ ٹیپ فہرست میں موجود ہی نہیں۔
وقوعے کے 40 دن کے بعد پہلی اور آخری مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے علاوہ پولیس نے اس ایک سال کے دوران کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا، پولیس آج تک فتح جھنگ کے قریب میری جائے بازیابی والے راستے میں نیشنل ہوئی وے اتھارٹی (این ایچ اے) ٹول پلازہ کے کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل نہیں کر سکی اور نہ ہی سکول والی ویڈیو میں نظر آنے والے چہروں کی نادرا سے شناخت کروا سکی ہے، شرمناک بات یہ ہے کہ بجائے نظر آنے والے باوردی اور مسلح اغواکاروں اور ان کی گاڑیوں کی شناخت کے (ویڈیو میں نظر آنے والی اغوا کاروں کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں تک کی شناخت پولیس سے نہیں ہو سکی) پولیس اور نادرا نے زرک خان نامی اس فرضی نام کا ڈیٹا کھود ڈالا ہے جو نام بتا کر اغواکاروں نے مجھے چھوڑا تھا کہ ہم سمجھے آپ زرک خان ہو۔ نادرا میں رجسٹرڈ زرک خان نامی ھزاروں افراد کی فہرستیں سپریم کورٹ کی فائل کا پیٹ بھرنے کو پیش کر دی گئیں، افسوس اس بات کا ہے کہ عدالت کے انتہائی معزز جج پولیس کے انتہائی معزز حکام کی ان انتہائی “قابل اعتبار” رپورٹوں پر خاموش بیٹھے ہیں۔
میرے اغوا کے بعد جو بھی میرے ساتھ ہوا وہ میں نے اپنے یو ٹیوب چینل ایم جے ٹی وی پر تیسرے دن ہی تفصیل سے بیان کر دیا تھا۔
https://youtu.be/wyUnBS5rRws
اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کو عوام سے شیئر نہ کرنا میرے نزدیک پیشہ وارانہ منافقت ہوتی، دوسروں کے ساتھ ہونے والے واقعات پر 26 برس تک بڑ چڑھ کر بولنے اور دوسروں کو کھل کر بولنے کی ترغیب دینے والا ایک صحافی اپنے ساتھ ہونے والے اس واقعے پر کس منہ اور متھے کے ساتھ خاموش رہتا۔
میرے اغوا کے دوران سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے صحافی دوستوں اور تنظیموں کی طرف سے بروقت رد عمل اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اظہر من اللہ کی بروقت اور ٹھوس کاروائی نے میری رہائی میں اہم کردار ادا کیا، اسی دوران سیرینا عیسی نے اپنے شوہر سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسی کے ہمراہ میرے اہل خانہ سے ملاقات کر کے اغوا کاروں کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کسی کی جاگیر یا رہائشی کالونی نہیں-
اس موقعے پر میں خاص طور پر اپنے پرانے ساتھی اعزاز سید کا ذکر کروں گا جنہوں نے سکول پہنچ کر بروقت سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ بنایا اور میڈیا پر شیئر کیا جو میری زندگی بچانے میں انتہائی مددگار ٹھہرا۔ ایسا نہ ہوتا تو سینئیر سکول گیٹ کے کیمروں اور ان کی ویڈیو کی طرح یہ ویڈیو بھی لاپتہ ہو جاتی اور یوں شاید میں خود بھی لا پتہ رہتا۔ بے چاری اسلام آباد پولیس کے بھاری بھرکم رینکوں کا بوجھ اٹھائے ان کے کندھے اور سینوں پر ٹنگے لوہے اور تانبے کے میڈل تو اپنے پیٹی بھائی ایس پی طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے ہوئے اغوا اور قتل کا آج تک سراغ نہ لگا سکے ان سے میں ایک صحافی کیوں امید لگاؤں گا، اسی طرح سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کا اپنا بیٹا اغوا ہوا (جب وہ سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج تھے) اور پھر پراسرار حالات میں واپس مل گیا، ملزمان مارے گئے اور فائل بند ہو گئی ایسے میں سپریم کورٹ کے انتہائی معزز ججوں کا میرے اغوا کو مبینہ اغوا لکھنا، چند تاریخوں پر پولیس کی رسمی سرزنش کرنا اور پھر انتہائی ناقص پولیس رپورٹوں پر ایک سال تک خاموشی اختیار کرنا وہ نہیں تو کیا ہے جس کو سینئیر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ حامد خان نے ایک حالیہ تقریر میں “گلزار ڈاکٹرائن” کا نام دیا ہے۔
آج نادر کے سربراہ ڈاکٹر طارق ملک بیرون ملک تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے تو ہیں مگر کچھ جرائم کی تفتیش کے حوالے سے وہ اپنے ریٹائرڈ فوجی ماتحتوں کے بھی ماتحت ہی رہیںگے، کیا وجہ ہے کہ نادرا کو میرے اغوا کاروں، احمد نورانی، ابصار عالم، اسد طور کے حملہ آوروں کے چہروں کی شناخت کرنے میں مشکلات درپیش ہیں؟
سنہ 2018 کا الیکشن چوری کرنے واسطے آر ٹی ایس کو بٹھانے والوں کا اب الیکٹرانک ووٹنگ نظام متعارف کرانے کا اعلان ڈاکٹر طارق ملک جیسے پڑھے لکھے نادرا چئیرمین کے ضمیر کا بہت بڑا امتحان ہو گا، پہلے آر ٹی ایس سکینڈل اور صحافیوں پر حملوں کی تفتیش میں نادرا کے مشکوک کردار پر ڈاکٹر طارق ملک اپنی اعلی تعلیمی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوزیشن واضح کریں تاکہ یہ تاثر نہ ملے کہ باہر کے پڑھے لکھے بھی حکومت کے نہیں حکمران جماعت کے ہی ملازم نکلتے ہیں۔
اسی طرح بات اسلام آباد سیف سٹی کیمروں کی کی جائے تو میرے اغوا سے متعلق نام نہاد سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج آج تک دستیاب نہ ہو سکی ہے، بظاہر پولیس کے زیر انتظام سیف سٹی منصوبہ در اصل پولیس کے کنٹرول میں ہی نہیں، مگر کیا کیا جائے کہ گیٹ نمبر چار کی پیداوار حکومت کا وزیر داخلہ شیخ رشید کیا جانے کہ ایک جمہوری ملک میں اقتدار پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک سے ملتا ہے۔
یہی حال پولیس تفتیش کی دوسرے یرغمال محکموں کا بھی ہے، جرائم کی تفتیش میں اہم ہتھیار “جیو فنسنگ” ہوتا ہے جس کے ذریعے جائے وقوعہ پر موجود مشکوک افراد کے موبائل فونز کی موجودگی اور ان کے رابطوں کے ریکارڈ سے پتہ چلایا جاتا ہے، یہ ٹیکنالوجی بھی وزارت داخلہ اور پولیس کے پاس ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے مگر حقیقت میں اس معاملے میں بھی وزیر داخلہ کی اوقات اس وزیر اعظم سے زیادہ تو نہیں ہو سکتی جو کہتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ صحافیوں پر حملے کون کروا رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید سے کچھ ساتھی صحافیوں سمیت ملاقات ہوئی تو عجیب رویہ دیکھنے کو ملا، تفصیل میں جانا تو شاید مناسب نہ ہو مگر یوں محسوس ہوا کہ وزیر داخلہ میرے اغوا پر مجھ سے ہمدردی کرنے کی بجائے کہہ رہا ہو کہُ”اس طرح تو ہوتا ہے پھر اس طرح کے کاموں میں” ملزمان کو پکڑنے کی یقین دہانی تو دور کی بات جب ایک جبر کے شکار صحافی کو یہ تاثر دیا جائے کہ وہ خود ایسے واقعات کا ذمے دار ہے تو ایسے وزیر داخلہ کو کیا نام دیا جائے؟ بس اتنا کہوں گا کہ آئین، قانون اور سویلین بالادستی کی بات کرنا کوئی “خارش” نہیں بلکہ قومی فریضہ ہے۔
شیخ رشید جن زمینی فرعونوں کی نام نہاد عظمت اور طاقت کی حمایت حاصل ہونے کا برملا اظہار کرتے ہیں وہ بھی کل گالف کی گیند کی مانند گم ہو جائیں گے، کہاں گئے وہ فلاسفر پروفیسر سید پرویز مشرف، ڈاکٹر اشفاق پرویز کیانی، علامہ راحیل شریف جو خود کو عقل کل اور قوم کے رہبرسمجھتے تھے؟ سابق صدر آصف زرداری نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہ برانڈ نیو غیر استعمال شدہ نئے نکور دماغ آتے تین سال کے لیے ہیں اور فیصلے 20 برس والے کرتے ہیں، مگر کیا کریں کہنے والوں نے خود ہی تین سال والوں کو چھ سال مدت دینے میں عافیت جانی۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری اور ن لیگ کی اعلی قیادت کی میڈیا سے اظہار یکجہتی کے لیے میرے گھر آمد خوش آئند تھی جبکہ حکمران جماعت کے اراکین کی طرف سے ایک فون کال تک کا نہ کیا جانا غیر سیاسی رویوں اور کم ظرفی کا عمدہ نمونہ تھا جو میڈیا کے بہت سے دوستوں کی توقع کے عین مطابق تھا۔
ایسے میں ایک یرغمال حکومت اور اس کے محکموں کی کیا جرات کے ایسے واقعات کی کھل کر مذمت کریں چہ جائے کہ تحقیقات کے ذریعے اغواکاروں کو قانون کے شکنجے میں لائیں.
وزیر اعظم عمران خان تو اپنے وزیر داخلہ سے صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے متعلق فون پر گفتگو کرتے بھی گھبراتے ہیں اور پھر ہم بات کرتے ہیں پڑوس ممالک میں کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی اور پھر مذاق تو یہ ہے کہ فواد چودھری جیسے وزراُ دوسرے ملکوں میں سیاسی مخالفین کی فون کالز ٹیپ کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے سیاست سیاستدانوں کے بیچ نہیں رہی، سیاست کے اس ٹینس میچ میں “بال بوائز” (کھلاڑیوں کو گیندیں پکڑا نے والے) کھلاڑیوں اور ایمپائروں ہر حاوی ہو چکے ہیں، اس کے باوجود کچھ نعرے اور بیانات امید دلاتے ہیں، میڈیا کی آزادی سے متعلق سیاستدانوں کی “خلوصِ نیت” کے پیچھے نیت کیا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ چند سیاستدان صرف اپنے بچاؤ یا فائدے کے لیے میڈیا کو حوصلہ دیتے رہتے ہیں، صحافیوں پر حالیہ حملوں سے متعلق پارلیمنٹ کی مختلف قائمہ کمیٹیوں کی کاروائی سے میڈیا کی آزادی متعلق چیلنجز کو اجاگر کرنے میں مدد تو ملی مگر پھر پارلیمنٹ کی بالادستی مسائل کو محض اجاگر کرنے سے نہیں قانون سازی اور فیصلہ سازی سے ہوتی ہے-
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور ہمارے لیے نہ سہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہتر وقت ضرور آئے گا جب آئین سے غداری، بےغیرتی اور بزدلی کی پھیلی وباؤں پر قابو پانے کے لیے ہماری ہی پڑھی لکھی نسلیں وفاداری، غیرت مندی اور بہادری کی ویکسین تیار کر لیں گی۔ یاد رہے کہ موسی فرعون کے محل میں ہی پرورش پاتا ہے۔