پاکستان پاکستان24

میڈیا کیس، سپریم کورٹ میں صحافی تقسیم ہو گئے

اگست 30, 2021 4 min

میڈیا کیس، سپریم کورٹ میں صحافی تقسیم ہو گئے

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ میں زیر سماعت صحافیوں کے حقوق سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں صحافیوں کے مابین دو آرا ء پائی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدر پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ امجد نذیر بھٹی نے کیس میں باضابطہ فریق بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔جبکہ سابق صدر پریس ایسوسی ایشن عبدالقیوم صدیقی،اسد طور اور لاہور سے عامر میر نے مقدمے میں فریق بننے سے معذرت کر لی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے پہلے صحافی بھاگتے بھاگتے عدالت میں آئے اور اب اُن میں سے چند صحافی اپنی مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں،چاہے عدالت میں کوئی بھی موجود نہ ہو ہم پھر بھی یہ مقدمہ چلائیں گے،متعلقہ حکام سے بھی پوچھیں گے۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

سپریم کورٹ میں صحافیوں کے حقوق سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الااحسن،جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کی۔ سماعت کا آغاز ہوا تو جیو نیوز سے وابسطہ سینئر صحافی عبدالقیوم صدیقی روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ وہ اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔

عبدالقیوم صدیقی نے تحریری جواب میں موقف اختیارکہ میں اس مقدمے میں فریق ہوں،اپنی درخواست واپس لینا چاہتا ہوں،روز محشرتمام مظلوموں کو انصاف مل جائے گا،میں یہ معاملہ اللہ چھوڑتا ہوں۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے سابق صدر سپریم کورٹ ایسوسی ایشن عبدالقیوم صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں،اگر آپ اپنی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں تو ہم آپ پر دباؤ نہیں ڈالیں گے،عدالتی کارروائی جاری رہے گی،آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے چاہے آپ عدالت سے رجوع کریں یا نہ کریں۔

ایک موقع پر جسٹس قاضی محمد امین اور عبدالقیوم صدیقی کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔

عبدالقیوم صدیقی نے کہا بیس اگست کے بعد جو ہوا اُس کی عدالتی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔جسٹس قاضی محمد امین نے کہا جو ہوا اُس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔

صدر پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ امجد نذیر بھٹی نے عدالت کو بتایا ہمیں صحافیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تحفظات ہیں۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا میڈیا قوم کا ضمیر اور قوم کی آواز ہیں۔جسٹس قاضی محمد امین نے کہا ہمیں اپنے تحفظات سے متعلق آگا ہ کریں،طبعی سہولت کی عدم فراہمی کی شکایت ہے تو بتائیں؟عدم تحفظ کا معاملہ ہے تو وہ بھی بتائیں۔

صحافی امجد نذیر بھٹی نے کہا جیو نیوز سے وابسطہ ایک صحافی ارشاد قریشی نے ایک دن پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر برائے داخلہ شیخ رشید احمد سے سوال کیا جو اُن پر گراں گذرا،شیخ رشید احمد نے صحافی ارشاد قریشی سے کہا اپنے سوال پر معافی مانگو ورنہ گھر بیٹھو،اس وقت صحافی ارشاد قریشی بے روزگار ہوکر گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آئین پاکستان میں امریکہ اور بھارت کے آئین کے مقابلے زیادہ اظہار رائے کی آزادی دی گئی ہے،بیس اگست کو کچھ صحافی بھاگتے بھاگتے ایک عدالت میں گئے اب کچھ صحافی مقدمہ واپس لینا چاہتے ہیں،ہم خود اس مقدمے کو سنیں گے۔

صحافی امجد نذیر بھٹی نے کہا سپریم کورٹ میں پہلے ہی صحافیوں کی تنخواہوں کا معاملہ زیر سماعت ہے،صحافیوں کی تنخواہوں کے مسائل اب بھی موجود ہیں۔جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا صحافیوں کی تنخواہوں کا مقدمہ سننے والے بنچ کا میں حصہ رہ چکا ہوں،ہم نے اُس کیس میں نوے فیصد صحافیوں اور اینکر پرسنز کو تنخواہیں دلوائیں،مالکان کو بھی طلب کیا گیا،ہم اُس وقت بھی آپ کے ساتھ کھڑے تھے۔

صدر پریس ایسوسی ایشن امجد نذیر بھٹی نے کہا سمیع ابراھیم کے ساتھ ایک وفاقی وزیر نے ناروا سلوک کیا وہ مقدمہ ابھی تک زیر التوا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا آج اس کیس کی پہلی سماعت نہیں ہے،آپ تحریری طور پر اپنا موقف پیش کریں ہم دیکھیں گے،آپ تمام واقعات کی فہرست فراہم کریں۔

جسٹس اعجا زالااحسن نے کہا جو مقدمات پہلے سے سرد خانوں میں ہیں ہم انھیں بھی دیکھیں گے،ہم اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی زیر سماعت مقدمات کی رپورٹ منگوائیں گے۔

صحافی امجد نذیر بھٹی نے کہا ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت مقدمہ بہت اچھے طریقے سے چل رہا ہے۔

جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا ہمارے لیے تمام عدالتیں قابل احترام ہیں لیکن جب سپریم کورٹ میں مقدمہ چلے گا تو باقی مقدمات رک جائیں گے،ہم تمام مقدمات کو گہرائی سے دیکھیں گے،ہم جامع اور فوکس عدالتی کارروائی چلائیں گے۔جسٹس منیب اختر نے کہا اب ہم دیکھیں گے،جو مقدمات چل رہے ہیں اُن کی کارروائی کیسے چل رہی ہے۔

سماعت جب مکمل ہوئی تو عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا عبدالقیوم صدیقی،عمران شفقت اور اسد طور نے اپنی درخواستیں واپس لینے کاکہا وہ اپنے جوابات سپریم کورٹ دفتر میں جمع کرائیں۔

عدالتی حکمنامے میں مزید کہا گیا صحافیوں کے حقوق سے متعلق ازخود نوٹس کیلئے بنچ چیف جسٹس نے بنایا ہے،ہم مقدمے کا جامع انداز میں جائزہ لیں گے،پہلے مرحلے میں ڈی جی ایف آئی اے،چیئرمین پیمرا کو ذاتی حیثیت سے پیش ہونے کا حکم دیتے ہیں،اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کی طرف سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف زیر سماعت مقدمہ کیسے چل رہاہے؟زیر سماعت مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟صحافیوں کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دی گئی درخواستوں اُن پر جاری گئے حکمناموں سمیت تمام تفصیلات پیش کی جائیں۔

عدالت نے آئی جی اسلام آباد، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سمیت چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹسز جاری کر دیئے۔مقدمے کے اختتام پر جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیئے جس طرح ایک جج سیاست نہیں کر سکتا بالکل اسی طرح صحافی بھی سیاست نہیں کر سکتا۔کیس کی آئندہ سماعت پندرہ ستمبر کو ہوگی۔

کیس کے اختتام پر جب سینئر صحافی مطیع اللہ جان سے اسلام آباد میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ منگوانے سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میرے خدشات درست ثابت ہوئے،کچھ صحافی دوستوں کی نادانی کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایف آئی اے کے حوالے سے اب تک کی محنت اور کارروائی پرپانی پھرتا نظر آرہا ہے۔مطیع اللہ جان نے مزید کہا سپریم کورٹ سے اب باقاعدہ طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایف آئی اے سے متعلق مقدمات پر مزید کارروائی سے روکنے کا حکم جاری ہوسکتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے