مزاحمت کا آغاز
Reading Time: 3 minutesزندگی کسی آفت کی وجہ سے پریشانی کے گرداب میں پھنس جائے تو کمزور سے کمزور انسان یا جانور بھی مزاحمت کے لئے تیار ہو جاتا ہے چاہے سامنے موجود دشمن کتنا بھی طاقت ور کیوں نہ ہو۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام میں بڑھتی بے چینی حکمرانوں کو نظر نہیں آ رہی۔ آئے روز پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، بڑھتے بلوں کی صورت بجلی کے بار بار لگنے والے جھٹکے، کاروبار کی بدحالی، روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی کمی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ جنونیت اور جبر پر یقین رکھنے والی حکومت اور ان کو لانے والوں نے تین سالوں میں ہر اس شخص اور ادارے کو دبانے کے لئے تمام حربے آزمائے ہیں جنہوں نے ان کی بات نہیں سنی، ویڈیوز اور ڈنڈے کے زور پر خود ساختہ انصاف کرنے والی حکومت نے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی اپوزیشن سیاسی جماعتوں سمیت تاجروں اور یونیورسٹی اساتذہ کی گرفتاریوں سے لے کر پلاٹوں میں عدم دلچسپی رکھنے والے ججوں اور مثبت رپورٹنگ نہ کرنے والے صحافیوں کے خلاف مقدمات، اغوا، تشدداور گولی کے ذریعے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ جس سے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ان شعبوں میں بھی بے چینی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔
شب ظلمت کے باوجود حق کا جھنڈا اٹھانے والے سیاست دانوں، صحافیوں، ججوں اور وکلا نے قدم پیچھے ہٹانے سے انکار کر دیا کیوں کہ ان سرفروشوں کو یقین ہے کہ دھواں عارضی ہے، ایک دن اس ملک میں روشنی پھیلے گی اور ہر انسان بولنے کی پابندی سے دور، معاشی پریشانی سے آزاد ہو کر زندگی بسر کر سکےگا۔ انصاف چند طاقت وروں کے ہاتھ میں آجائے تو معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ عدالت وہ مقام ہے جہاں سے مظلوم شہریوں کو انصاف فراہم ہوتا ہے اگر تمام ادارے بھی حق دینے سے انکار کر دیں تو بھی لوگوں کو عدالت سے انصاف ملنے کا یقین ہوتا ہے تاہم عدالت کی طرف سے انصاف کی فراہمی نہ ہونے پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ بینچ کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ سینئر وکلا کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سینئر ججز کے خلاف نعرے بازی اور تقریریں کی گئی ہیں اس سے قبل سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں کھلے عام کبھی ایسی گفتگو نہیں کی گئی۔ اسی طرح معاشی بدحالی اور بنیادی سہولیات سے دور ہوتے جا رہے۔
پاکستان میں جبر کی یہ رات نئی نہیں ہے اس سے قبل بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے براہ راست یا کسی سیاسی کندھے کی مدد سے اقتدار پر اپنی گرفت رکھنا اور لوگوں کی فلاح کی بجائے صرف ذاتی مفادات کا تحفظ کرنا ان کا مشن رہا ہے تاہم ہر دور میں لوگوں کی طرف سے مزاحمت ہوتی رہی، ہر مزاحمت کا طریقہ کار مختلف رہا اور کھلاڑی بھی بدلتے رہے تاہم مقصد ایک، حق حاصل کرنا۔ دوسال کی محنت والے مقتدر حلقوں کی بات نہ ماننے والے ججوں وکلا، جیلیں کاٹنے والے سیاست دانوں اور ان کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والے صحافیوں کی طرف سے مختلف تحریکوں کا آغاز ہوچکا ہے آنے والے دنوں میں یہ تحریک حکومت کے لیے بڑے خطرے کی علامت بن سکتی ہے، جمہوری ممالک اور معاشروں میں انقلاب نہیں بلکہ جمہوریت کی بالادستی ضروری ہے۔ شہریوں میں مایوسی تیزی سے پھیل رہی ہےجس سے معاشرہ انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔
صاحب اقتدارکو سیاسی حریفوں کو دبانے اور اداروں میں مداخلت کو بند کر کے شہریوں کی فلاح و بہبود، معاشی حالات بہتر کرنے کےلئے اقدامات اٹھانے چاہیے تاکہ ان کی زندگی میں بہتری آئے اور معاشرہ انتشار سے بچ سکے۔