امریکہ عسکری طاقت کے بجائے سفارتکاری سے عالمی مسائل حل کرے گا
Reading Time: < 1 minuteامریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کے ملک کی عسکری طاقت کا استعمال آخری حربے کے طور پر ہونا چاہیے۔
منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ چین کے ساتھ سرد جنگ نہیں چاہتا، بلکہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے تنازعات سے ہٹ کر موسمیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس جیسے بحرانوں سے متعلق عالمی رہنمائی فراہم کرے گا۔
بطور صدر جنرل اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں جو بائیڈن نے کہا کہ وہ تنازعات کے باوجود جمہوریت اور ممالک کے ساتھ اتحاد کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ ہر اس ملک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے جو چیلنجز کو شیئر کرتے ہوئے پرامن حل کی جانب قدم اٹھائے گا اگرچہ دیگر معاملات پر شدید اختلافات رکھتے ہوں۔
بائیڈن انتظامیہ چین کو اکیسویں صدی کا سب سے اہم چیلنج قرار دے چکی ہے لیکن جنرل اسمبلی کے خطاب میں امریکی صدر نے واضح کیا کہ امریکہ نئی سرد جنگ کا آغاز نہیں چاہتا اور نہ ہی دنیا کو بلاکس میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ وہ بیس سالہ تاریخ میں پہلے امریکی صدر ہیں جن کے دور میں امریکہ کوئی جنگ نہیں لڑ رہا، بلکہ امریکہ سفارتکاری کے نئے دور کا آغاز کر رہا ہے جس میں عسکری طاقت کو آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
صدر جو بائیڈن نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کی غرض سے چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ سفارت کاری کے ذریعے جوہری معاہدہ بحال کیا جائے جس سے امریکہ 2018 میں دستبردار ہوا تھا۔