’ہم ایک ساتھ رہ سکتے ہیں‘، شام میں 1000 افراد کے قتل کے بعد حکومتی اعلان
Reading Time: 2 minutesشام کے عبوری حکمران احمد الشرع نے اتوار کو سکیورٹی فورسز اور سابق حکومت کے وفاداروں کے درمیان کئی دنوں تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد امن اور قومی اتحاد کا مطالبہ کیا ہے۔
اس لڑائی میں دو دنوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر علوی شہری تھے جو سابق جلاوطن حکمران بشار الاسد کے حامی اور ان کے فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
الشرع نے دمشق کی ایک مسجد سے دیے گئے خطبے میں کہا کہ ’ہمیں قومی اتحاد (اور) شہری امن کو ہر ممکن حد تک برقرار رکھنا چاہیے اور انشاء اللہ ہم اس ملک میں ایک ساتھ رہ سکیں گے۔‘
ایک جنگی مانیٹرنگ گروپ نے ہفتے کے روز کہا کہ سکیورٹی فورسز اور معزول شامی صدر بشار اسد کے وفاداروں کے درمیان دو روز سے جاری جھڑپوں اور اس کے بعد ہونے والی انتقامی ہلاکتوں میں مرنے والوں کی تعداد 1,000 سے زیادہ ہو گئی ہے، جن میں 750 عام شہری بھی شامل ہیں.
یہ 14 سال قبل شام کی لڑائی شروع ہونے کے بعد سے تشدد کی سب سے مہلک کارروائیوں میں سے ایک ہے۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ 745 عام شہریوں کے علاوہ، جن میں زیادہ تر قتل عام میں مارے گئے، 125 سرکاری سکیورٹی فورس کے ارکان اور اسد سے وابستہ مسلح گروپوں کے 148 جنگجو مارے گئے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ لطاکیہ شہر کے آس پاس کے بڑے علاقوں میں بجلی اور پینے کا پانی منقطع ہے۔
باغیوں کے اسد کو اقتدار سے ہٹا کر اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد جمعرات کو شروع ہونے والی جھڑپوں نے دمشق میں نئی حکومت کو چیلنج کرنے میں ایک بڑی شدت کا بتایاہے.
حکومت نے کہا ہے کہ وہ بشار الاسد کی افواج کے حملوں کا جواب دے رہے تھے اور اس تشدد کے لیے "انفرادی اقدامات” کو مورد الزام ٹھہرایا۔
اسد کے اقلیتی علوی فرقے کے ارکان کے خلاف حکومت کے وفادار سنی مسلمان بندوق برداروں کی جانب سے جمعے کو شروع ہونے والی انتقامی ہلاکتیں، حیات تحریر الشام کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو سابق حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنا تھا۔
علویوں نے کئی دہائیوں سے اسد کی حمایت سے اثر و روسوخ قائم کیا تھا.