سی پیک کمیٹی اجلاس میں چینی کیا کہتے رہے؟
Reading Time: 4 minutesسی پیک کے حوالے سے پاکستان اور چین کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا جمعرات کو منعقدہ اجلاس کئی حوالوں سے بہت اہم تھا۔ اس اجلاس سے بہت سی باتیں سمجھنے میں مدد ملی ہے۔
جے سی سی کا قیام سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے دورہ چین کے موقع پر عمل میں لایا گیا تھا۔ چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے سربراہ اور اس وقت پاکستان کی پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ منسٹری کے وفاقی وزیر احسن اقبال اس کی مشترکہ سربراہی کیا کرتے تھے۔
جے سی سی، سی پیک پراجیکٹس کی منظوری، عملدرآمد، کام کی رفتار کے جائزے سے متعلق اعلیٰ ترین سطح کی کمیٹی ہے۔ اس وقت طے یہ پایا تھا کہ ہر چھ مہینے بعد اس کا اجلاس ہو گا جس میں اس وقت تک کی پیشرفت کا جائزہ لیا جائے گا۔ اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں گے۔
احسن اقبال کی سربراہی میں 2015 سے 2018 تک اس کمیٹی کے آٹھ اجلاس ہوئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک یا دو مواقع پر چینیوں کی فرمائش پر شہباز شریف نے بھی اس میں خصوصی شرکت فرمائی تھی۔
پھر کیا ہوا؟
اب یہ جے سی سی کی دسویں میٹنگ تھی۔ یعنی پچھلے تین برس میں اس کے صرف دو اجلاس منعقد ہو پائے۔ نومبر 2019 میں کمیٹی آخری مرتبہ اکٹھے بیٹھی تھی۔ یعنی دو سال بعد بالآخر کفر ٹوٹا خدا، خدا کر کے۔
ان دو برس میں ہم نے کیا کیا؟ ہم نے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن سے، جو بہترین کام کر رہا تھا، سی پیک لے کر، جرنیلوں کی فرمائش پہ سی پیک اتھارٹی بنا ڈالی۔ جنرل عاصم باجوہ ایک طرف 35 لاکھ ماہانہ تنخواہ سرکاری خزانے سے لے کر امریکا میں اپنی پیزا ایمپائر وسیع کرتا چلا گیا اور دوسری طرف پاکستانیوں کو ٹوئٹر پہ ہوائی قلعے تعمیر کر کے دکھاتا رہا۔
کٹھ پتلی وزیراعظم اس خیالی کارکردگی پر اسے داد دیتا رہا، چمچہ گیر صحافی اپنے کالموں میں اس پر داد کے ڈونگرے برساتے رہے، انصافی دوست اس پہ واری صدقے جاتے رہے۔ حتیٰ کہ بالآخر چینی ہی ہمارے ریسکیو پر آئے اور ہمیں اس ریٹائرڈ جرنیل سے نجات دلوائی۔
یہ تو ہوگیا اس اجلاس کا پس منظر۔ اب اس میں پیشرفت کیا ہوئی ہے؟
اہم ترین یہ کہ گزشتہ دنوں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں سی پیک کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ وہ سب کے سب درست ثابت ہوئے۔ خصوصاً جناب سلیم مانڈوی والا کا یہ کہنا کہ چینی پاور پروڈیوسر انتہائی ناخوش ہیں حکومت کی کارکردگی سے۔
اجلاس کو بتایا گیا ہے کہ چینی پاور پروڈیوسرز کے واجبات 1.3 ارب ڈالر یعنی کوئی ڈھائی سو ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ پاور سیکٹر کا مجموعی سرکولر ڈیٹ 2400 ارب سے تجاوز کر چکا ہے۔
پچھلے سال ہمیں خوشخبری سنائی گئی تھی کہ اس کھربوں روپے کے قرض کی ادائیگی کے لیے ایک ریوالونگ فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ چینیوں نے اس فنڈ اور اس سے ادائیگی کے طریقے پر بھی ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔
پاور پروڈیوسرز کا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ معاہدوں کے مطابق ٹیکسوں کی شرح یکساں رہنی تھی، جبکہ ان پر بغیر بتائے، بغیر اعتماد میں لئے اضافی ودہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
اسد عمر نے یقین دلایا ہے کہ یہ اضافہ واپس لیا جائے گا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ صرف چینی کمپنیوں کو ودہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے تو دیگر پاور پروڈیوسرز عدالت چلے جائیں گے کیونکہ یہ لیول پلئینگ فیلڈ کی خلاف ورزی ہوگی۔ اور اگر سب کو ہی چھوٹ دے دی جاتی ہے تو آئی ایم ایف گلے پڑ جائے گا۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
یہ تو ہو گئے پاور پروڈیوسرز۔ اب آ جائیں ریلوے کے ایم ایل ون پراجیکٹ کی طرف۔ ہم جب بھی اس پر پیشرفت نہ ہونے پہ تشویش کا اظہار کرتے، کوئی نہ کوئی انصافی بھائی باجوہ اور شیخ رشید کے بیانات لہرانے لگتا ہے۔ شیخ صاحب کے بقول مکمل اتفاق رائے ہو چکا اور بس دستخط ہونے باقی ہیں۔ کل کے اجلاس سے علم ہوا ہے کہ ایم ایل ون اب بھی فائنلائز ہونا باقی ہے۔ چین اس کی فنانسنگ ایک سے زائد کرنسیوں میں کرنا چاہ رہا۔ ہمیں ڈالر لینے پر اصرار ہے۔ اسد عمر کے بقول اس کے علاوہ بھی کچھ امور طے ہونا باقی ہیں۔
تیسرا اور سی پیک کے اگلے مرحلے کے حوالے سے اہم ترین معاملہ یہ تھا کہ چینی کمپنیوں نے پاکستان میں جو انڈسٹری لگانا تھی۔ اس کے لیے ایک فریم ورک تشکیل دیا جانا تھا۔ جو اب تک اٹکا ہوا ہے۔ جب پریس کانفرنس میں اسد عمر سے یہ سوال کیا گیا تو جناب نے فرمایا کہ اب فریم ورک ایگریمنٹس سے گل ودھ گئی اے کیونکہ تین زونز اب مکمل تیار ہیں۔ گویا تاثر یہ دیا کہ اب فریم ورک کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ دو سال قبل یہ فریم ورک مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ تاحال نہیں ہو پایا اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے مطابق کل کے اجلاس میں طے پایا ہے کہ آئندہ اجلاس سے پہلے پہلے فریم ورک تشکیل دے دیا جائے گا۔ اب اسد عمر سچا ہے یا بورڈ آف انویسٹمنٹ، یہ فیصلہ خود ہی کر لیں۔
اس کے علاوہ اجلاس میں چینیوں کا سارا زور داسو حملے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے اور اس کے تمام حقائق سے آگاہ کرنے پر رہا ہے۔ ہم جولائی سے مسلسل یقین دہانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں۔ پیشرفت کا چینی ہی پوچھ سکتے، ہم پوچھیں تو نمبرون کی توہین ہوتی ہے۔
چار پانچ دن پہلے اسد عمر نے ہنگامی بلائی پریس کانفرنس میں ایک طرح سے تنبیہہ کی تھی کہ سی پیک کے حوالے سے منفی باتیں نہ کی جائیں۔ شاید اسی لیے کہ اسے ڈر تھا کہ اجلاس ہوگا تو ہمارا کچا چٹھا سب کے سامنے آ جائے گا۔
اجلاس میں کراچی پورٹ پر انڈسٹریل زون کی تعمیر کے حوالے سے ایک ایم او یو سائن ہوا ہے۔ اور دو ایم او یو کراچی پورٹ ٹرسٹ، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ان کے متعلقہ چینی اداروں کے درمیان طے پائے ہیں۔
اب مل کر دعا فرمائیں کہ جے سی سی کا گیارہواں اجلاس اس حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہو جائے۔
سی پیک اتھارٹی کا انتظام اب ایک سویلین جناب خالد منصور کے سپرد ہے۔ جس پر بڑی حیرت ہے۔ شاید غفور صاحب کی ریٹائرمنٹ تک انہوں نے سیٹ سنبھال کر رکھنی ہے۔