کالم

کچی پنسل کا پکا ووٹ

ستمبر 25, 2021 4 min

کچی پنسل کا پکا ووٹ

Reading Time: 4 minutes

جرمنی سے ایک پرانا پاکستانی
دہسار ملک جرمنی کے پارلیمنٹ کے لیے چوتھی مرتبہ اپنا ووٹ ڈالنے کا فرض کفایہ ادا کریں گے- اس کے باوجود کہ سسٹم اتنا کمال ہے اور ملک گزشتہ پندرہ سال سے زیادہ آٹو پائلٹ پر چل رہا ہے، اسی فیصد کے لگ بھگ افراد یہ کفایہ والا فرض ادا کرتے ہیں-

اٹھائیس سال پہلے جب جرمنی آئے ان کی سیاست میں حد سے زیادہ دلچسپی تھی اور شائد اس لیے بھی کہ ہم پاکستان سے یہ جوش و ولولہ ساتھ لائے تھے- کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی اس وقت ہیلموٹ کوہل کے ہاتھ میں تھی کہ جس نے ساری دنیا جہاں سے جرمن اکٹھے کر کے دوبارہ جرمنی میں بسائے اور 1990 میں جنگ عظیم کے بعد سے جرمنی کے چار ٹوٹوں میں سے آخری دو کروڑ آبادی والا مشرقی ٹوٹا بھی باقی جرمنی کے ساتھ منسلک کر دیا- اور اس کے لیے معاشی کمزور روس کو بھی مٹھ رکھنے کی بہت بڑی قیمت ادا کی- یہ یاد رکھیں کہ ہم ابھی تک بنگلادیش سے پچاس سال میں دو سوا دو لاکھ بیہاری بھی واپس نہیں لا سکے جو آج سے دو چار سال پہلے تک پاکستان کا جھنڈا اپنے گھروں سے نہیں اتارتے تھے- شائد اب انھیں آنے کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی- مغربی جرمنی کے ہر تین انصاریوں نے اپنے سے بیس گنا مالی لحاظ سے کمزور ایک مشرقی مہاجر کا بوجھ اٹھایا- یہ سب فیصلے ہیلموٹ کوہل کے ہی تھے-

ان فیصلوں کی وجہ سے 1995 میں جرمنی کی بے روزگاری انتہائی زیادہ ہو گئی- اور مشرقی جرمنی کے اس وقت کے مامے اور آج کی تاریخ میں بابے آج بھی اپنے اس کمیونسٹ دور کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں- ہمارے پاس بھی ایسے ویلے پیراسائٹ بابوں کی کوئی کمی نہیں- جرمنی کی اب تک کی جنگ عظیم کے بعد کی تین چوتھائی صدی کی تاریخ میں 1998 پہلی اور آخری مرتبہ تھا کہ اپوزیشن نے حکومت کو شکست دی- اس کے بعد بھی آج تک ایسا ممکن نہیں ہوا- جتنی حکومتیں تبدیل ہوئیں- وہ صرف روٹی کے ساتھ سالن کی ہی تبدیلی تھی- ورنہ ملکی نظام جیسے پہلے آٹو پائلٹ پر لگا تھا، ویسے ہی آج بھی لگا ہے اور کسی بڑی تبدیلی سے کسی کو کوئی غرض نہیں ہے-

2001 میں اس سسٹم میں مجھ پر بھی وسائل و لوازمات کے طفیل جرمن شہریت کا حج اصغر فرض ہو گیا تھا، لیکن پاکستانیت کے حج اکبر نے اس حج اصغر سے روکے رکھا- لیکن کہاں تک رکتا- ڈھلتی عمر نے پاکستانی مذہب ترک کرنے اور جرمن مذہب اختیار کرنے کے لیے مجبور کر دیا- سو دہسار ملک محدث پاکستانوی سے المانوی ہو گئے- پاکستانی احباب تو مجھ سے چھ آٹھ سال پہلے ہی فوائد کے حصول کے لیے دکھاوے کے جرمن ہو گئے تھے، لیکن آج تک پاکستانی مذہب اختیار کئے ہوۓ ہیں- محفلوں میں بیٹھ کر جب جرمن مذہب کے کیڑے نکالتے ہیں تو خدا قسم منافقین مکہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے- کہتے ہیں کہ انسان پاکستان سے نکل جاتا ہے لیکن پاکستانیت انسان سے نہیں نکلتی- سو دہسار ملک بھی اس اعتبار سے منافقت کے کسی نہ کسی درجے میں ضرور پائے جاتے ہیں-

دہسار ملک کے مشرف باالمانیہ ہوتے ساتھ ہی سیاست کا بھوت سر سے اتر گیا- لیکن ووٹ کا شوق دل میں رہا-
جرمنی میں الیکشن میں سب کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں- ایک حلقے کا شخصی ووٹ اور ایک ووٹ کسی پارٹی کی امانت- اگر یہی پہلا ووٹ اکثر افراد جس شخص کو دیں اور پارٹی ووٹ اسی شخص کی پارٹی کو نہ دیں تو سسٹم کو پارلیمنٹ میں فالتو کرسیاں لگوانی پڑ جاتی ہیں کہ پارلیمنٹ میں نمایندگی ہر صورت پارٹی ووٹ کے تناسب سے ہوتی ہے- اپنے ذہن پر اس سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا کہ جرمنی کے الیکشن کمیشن کے سسٹم پر تحقیق کرنے والے پی ایچ ڈی حقیقت میں "پھرے ہوۓ دماغ” بن جاتے ہیں- دہسار ملک بھی ہمیشہ سے اپنا ووٹ توڑ کر دیتے رہے- شخصی ووٹ ہمیشہ سوشلسٹوں کو دیا اور اور آخری الیکشن سے پہلے تک پارٹی ووٹ گرین پارٹی کو- اینگیلا میرکل کے چانسلر بننے کے پہلے سے ہی کوئی محبت نہیں تھی کہ منہ نہ متھا اوپر سے بیانات بھی بارلوں کے مخالف- پھر 2015 اور 2016 کا زمانہ آیا اور جرمنی کے ہر بارڈر سے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد، جن میں سے کوئی دو چار چھوڑ کر سارے کے سارے مسلمان، مسلمانوں سے ہی پناہ مانگتے ہوۓ- سعودیہ، ترکی اور امارات جیسے امیر ملک اپنے ہی ہمسائے میں مسلمانوں کو دھتکارتے ہوۓ، اور یورپ میں اکیلا جرمنی سب کو اہل وسہلا کہتے ہوۓ- اور اس سارے جلوس کے آگے لگی ہوئی اینگیلا میرکل جو کسی صورت بھی انسانی المیوں پر سمجھوتہ کرنے کو تیار ہی نہیں- صرف جرمنی نہیں بلکہ یورپ پارلیمنٹ میں ایسے لگے کہ جیسے دو تین روز میں کلمہ پڑھنے ہی والی ہے- یہ جانتے ہوۓ کہ کل کو انہی پناہ گزینوں نے نہ صرف امن و امان کی صورت پیدا کر دینی ہے بلکہ اپنے پیسے کما کر بھی ان کو ہی پیسے بھیجنے ہیں، جنہوں نے رب کی خوشنودی کی خاطر اسی مغرب کی بنادیں کھود کر کمزور کرنی ہیں- لیکن اینگیلا میرکل انسانیت کی بنیادوں کے تحفظ کے لیے مذہب کا نام بھی لینے کو تیار نہیں- بس اسی ایک بات نے دہسار ملک کو بھی اس کا دیوانہ بنا دیا- حالانکہ دہسار ملک کہیں سے مذہب کی حاکمیت کو سیاست میں دوسرا چھوڑ تیسرا درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں- 2017 میں دہسار ملک نے پہلی مرتبہ اینگیلا میرکل کی محبت میں کریسچن ڈیموکریٹ کو پارٹی ووٹ دیا اور کل بروز 26 ستمبر 2021 کو بھی دینے کا ارادہ ہے، اس سے قطع نظر کہ اینجی نے سیاست سے کنارہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے-

جرمنی میں ووٹنگ کے عمل میں 90 فیصد سے زیادہ عملہ صرف کافی کے دو کپ اور ایک سینڈوچ یعنی جرمن قیمے والا نان کے عوض بغیر پیسوں کے اعزازی خدمت انجام دیتا ہے- ووٹر کے ساتھ آنے والے بچوں کو ایک ٹافی بھی مخیر حضرت کے تعاون سے دی جیتی ہے- بس یہی روکھی سوکھی جمہوریت ہے اس ملک کی- اکثر پرائیویٹ رایستوران یا اسکول میں ووٹنگ کا عمل ہوتا ہے، جس کے عوض کوئی کرایہ نہیں ادا کیا جاتا اور ایک ہماری فوج صرف سیکورٹی کے نام پر ہی اربوں وصول کرتی ہے اور ساتھ اپنے لچ علیحدہ تلتی ہے- صرف شک پڑنے پر ہی کسی سے اس کا شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے- ووٹ کے سامنے بنے ایک چھوٹے گول دائرے میں ایک سکے والی پنسل سے ٹک یا کراس کا نشان بنانا ہوتا ہے- کوئی پارٹی نتائج پر ایک اعتراض نہیں جڑتی- شائد ہی کوئی ووٹ کینسل ہوتا ہے کہ یہ ہے
کچی پنسل کا پکا ووٹ.

(دہسار ملک محدث المانوی والباکستانی)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے