کالم

ڈیپ فیکس ویڈیو کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں

ستمبر 27, 2021 5 min

ڈیپ فیکس ویڈیو کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں

Reading Time: 5 minutes

رعنا ایوب ان گنے چنے بھارتی صحافیوں میں سے ایک ہیں جو مودی سرکار کی انتہاپسندانہ پالیسیوں اور ہندوتوا ڈاکٹرائن کا پردہ نہایت دلیری اور استقامت سے چاک کر رہے ہیں۔ یہ ان کا پہلا جرم ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ خاتون ہیں۔

میں نے ڈیپ فیکس اور ان کے پیچھے کام کرنے والی ٹیکنالوجی کو سیریس اس وقت لینا شروع کیا جب ٹوئٹر پر بھگتوں نے رعنا ایوب کے خلاف انتہائی زہریلی اور گھٹیا مہم شروع کی۔ بھارتی ٹویٹر پہ ان کی نازیبا تصاویر اور وڈیوز کا ایک سیلاب سا آ گیا۔ جس جس سوشل میڈیا نیٹ ورک پہ رعنا ایوب موجود تھیں، وہاں وہاں ہندو انتہا پسند ان کا پیچھا کرتے اور ان پہ کیچڑ اچھالتے رہے۔ ان کے قریبی رشتہ داروں کے اکاؤنٹس اور ای میلز پر یہ تصاویر اور وڈیوز بھیجی گئیں۔

ایک اندھا بھی اندازہ کر سکتا تھا کہ یہ سب فیک ہے مگر سچ اور جھوٹ کی پروا ہی کسے تھی۔ اللہ نے رعنا ایوب اور ان جیسے دیگر دلیر خواتین و حضرات کو مگر اتنا حوصلہ ضرور دیا ہے کہ اس زہریلے، ناشائستہ پراپیگنڈے کے باوجود وہ اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ سے منسلک ایک غیرملکی خاتون سے ایک فورم پر رابطہ رہتا ہے۔ جب ڈیپ فیکس کا معاملہ ان سے ڈسکس کیا تو ان کی اپنی المناک کہانی سننا پڑ گئی۔

یہ 23, 24 سال کی نوجوان خاتون ہیں۔ سویڈش ہیں۔ کچھ ہی ماہ قبل ان کے بوائے فرینڈ نے انہیں باقاعدہ پروپوز کیا۔ اس سے ایک دو مہینے پہلے انہیں اس سٹارٹ اپ میں اپنی پہلی باقاعدہ جاب ملی تھی۔ اب یہ اور ان کے دوست اپنی شادی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ یعنی زندگی کا وہ وقت جب آپ کو خود کو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پہ کھڑا محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

ان کے ایک کولیگ تھے جنہوں نے انہیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے شائستگی سے انہیں انکار کر دیا۔ مغرب میں یہ معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اتفاق سے کچھ معاملات پر انہی صاحب کے سٹارٹ اپ کے بانی سے کچھ اختلافات ہوئے۔ جن کی بناء پر وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔

دس پندرہ دن بعد اس سٹارٹ اپ میں کام کرنے والے سب لوگوں کو، ان خاتون کے بوائے فرینڈ کو، سٹارٹ اپ فاؤنڈر کی زوجہ کو، ایک وڈیو موصول ہوئی جس میں ان خاتون اور ان کے باس کو نازیبا حالت میں دکھایا گیا تھا۔

قانونی کارروائی چل رہی ہے لیکن ان کے بوائے فرینڈ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وڈیو فیک ہے، ان سے بریک اپ کر چکے۔ جاب پر جانا ان کیلئے اذیت ناک تجربہ ثابت ہو رہا تھا۔ کولیگز اور باس کی سپورٹ حاصل ہونے کے باوجود انہوں نے جاب چھوڑ دی۔ پریکٹکلی انہیں اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرنا پڑی ہے۔

انہوں نے کچھ لنکس بھیجے، کچھ این جی اوز ہیں، کچھ ادارے ہیں جو مختلف ممالک میں انٹرنیٹ کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہی لنکس سے کچھ پڑھتے سمجھتے مجھے ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کا ایک آرٹیکل ملا۔

یہ ریویو ایک ویب سائٹ کا ہے جو کہ آن لائن ڈیپ فیکس کی سہولت مہیا کرتی ہے۔ ریویو اس ویب سائٹ کی ٹریفک میں اضافے کا سبب نہ بنے اس لئے ایم آئی ٹی نے اس کا نام استعمال نہیں کیا۔ آپ اسے ایکس وائی کچھ بھی کہہ لیں۔

اس ویب سائٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اس پہ اپنی یا کسی کی بھی ایک یا ایک سے زائد تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ چند لمحوں بعد یہ ویب سائٹ آپ کو اس تصویر میں موجود شخص کی چار پورن وڈیو کلپس بنا کر دے دیتی ہے۔ آپ انہیں آن لائن فری دیکھ سکتے ہیں۔ ڈاؤنلوڈ کرنا چاہیں تو پیمنٹ ادا کرنا پڑتی ہے۔ چھ یا سات ڈالر فی کلپ۔

چھ یا سات ڈالر میں آپ کسی کی بھی زندگی برباد کر سکتے ہیں۔

اس ریویو میں بھی رعنا ایوب کا تذکرہ ہے اور چند ایک اور خواتین کا جنہیں ایسی ہی صورتحال سے گزرنا پڑا۔ آپ اسے پڑھیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ اس ناخوشگوار تجربے سے گزرنے والوں کو کس قدر ذہنی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ لوگوں کے طعنے، تحقیر آمیز تبصرے اور گالیاں دھمکیاں الگ۔

چند ایک تنظیمیں اس کوشش میں ہیں کہ ہوسٹنگ کمپنی اس ویب سائٹ کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس ایکس وائی ویب سائٹ کے خلاف کوششیں ابھی جاری ہیں کہ یہی خدمات مہیا کرنے والی ایک اور ویب سائٹ میدان میں اتر آئی ہے۔

آپ ان سب کو ختم بھی کر دیں تو یہ الگوردم، یہ ماڈل اس میدان سے شغف رکھنے والے ہر شخص کی رسائی میں ہے۔ جو کام آن لائن نہ ہو پائے، تکنیکی مہارت رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے اپنے پرسنل کمپیوٹر پہ انجام دے سکتا ہے۔

یقین کیجئے کہ مغرب میں انتہائی سخت ریگولیشنز اور قوانین کے باوجود یہ ڈیپ فیکس کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

ہم جیسے ملکوں میں بندروں کے ہاتھ یہ استرا لگ جائے تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہاں میرے اور آپ سمیت کسی کی عزت محفوظ نہیں رہ سکتی۔

اب آ جائیں زبیر عمر صاحب کی حالیہ وڈیو کی جانب۔ سیاستدان سب سے آسان نشانہ ہیں اس ملک میں۔ آپ ان سے کچھ بھی، کسی بھی وقت منسوب کر سکتے ہیں۔ صرف الزام لگانا ضروری ہے۔ ثبوت و شواہد نہ کوئی مانگتا ہے نہ کوئی دیتا ہے۔

فرض کر لیجئے کہ یہی وڈیو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہوتی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی ہوتی۔ حتیٰ کہ کسی ریٹائرڈ جنرل مثلآ عاصم باجوہ یا تبلیغی جنرل محمود کی ہوتی تو کتنے لوگ شئیر کرتے۔ کتنے اس پر مضامین باندھتے اور کتنے ان مضامین پر آ کر فقرے چست کرتے۔

یہ میں اس لئے کہہ رہا کہ رات سے میں ان لوگوں کو بھی اچھلتے دیکھ رہا ہوں جنہیں ایک ریٹائرڈ جنرل کے اربوں روپے کے بیرون ملک اثاثوں پر ایک لفظ کہنے کی توفیق یا ہمت نہیں ہوئی تھی۔ آج وہ ٹرینڈ چلاتے دکھائی دے رہے۔

دوسرا آپ مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے حامیوں میں فرق ملاحظہ کیجئے۔ شیخ رشید جیسے بدنام زمانہ انسان کی نازیبا تصاویر اس خاتون نے جاری کیں جس کے ساتھ شیخ صاحب کی لمبی لمبی کالوں کا وڈیو پروف بھی موجود ہے۔ جناب نے کبھی اس کی تردید بھی نہیں کی۔ کسی نے ان کے خلاف باقاعدہ مہم نہیں چلائی۔ انہیں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا۔

دو تین دن قبل پی ٹی آئی کی ایک خاتون ایم پی اے سے منسوب ایک نازیبا وڈیو منظرعام پر آئی۔ مسلم لیگ نون نے اس پر ٹرینڈ نہیں چلائے۔ ہم فیسبک پر موجود نون لیگ کے حامیوں نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔

اسی طرح زبیر عمر کی وڈیو کا ہم نے دفاع نہیں کیا۔ میں نے ان کی ایک ٹویٹ ایڈٹ کر کے ان کا مذاق اڑایا۔ اب میں وہ ڈلیٹ کر چکا۔ میرے جیسے درجنوں نون لیگ کے حامیوں نے ان پر ٹھٹھے کسے، فقرے چست کئے۔ پی ٹی آئی کے دوستوں کی پوسٹس پر بھی ہم ہنستے مسکراتے رہے۔

لیکن آپ دوسری جانب کا کردار دیکھیں۔ زبیر صاحب کے نام کا ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے۔ اور انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ان کی وڈیو لیک کرنے کا ذمہ دار مریم نواز صاحبہ کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ بہت پڑھے لکھے لوگ بھی ایسا ہی کرتے پائے گئے ہیں۔

یعنی جو مریم نواز اپنے ترجمان کو ایک لیٹر پر ترجمانی اور پارٹی دونوں سے کک آؤٹ کر سکتی ہیں، وہ اتنی بے بس ہیں کہ ان کی وڈیو جاری کروا کر انہیں جماعت سے نکالنا چاہیں گی۔ کردار اور تربیت کا پتہ ان باتوں سے چلتا ہے۔ باقی فیسبک پر ہم سب بہت نیک، متقی اور مصلح ہیں۔

میں وڈیو پر کوئی تکنیکی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ کمرے کی بناوٹ اور تین یا چار کیمروں کا استعمال اسے مشکوک بنا رہا ہے۔
فرانزک آڈٹ کروایا جا سکتا ہے۔ ضرور ہونا چاہئے۔ مگر میرا ہمدردانہ مشورہ یہی ہے کہ اگنور کریں۔

زبیر صاحب اور پارٹی قیادت کو اس وڈیو کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ دلدل ہے جس میں جتنے آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے، اتنا ہی دھنستے چلے جائیں گے۔ لعنت بھیجیں, بھول جائیں اور اپنے محاذ پر ڈٹے رہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے