خفیہ کے ڈی جی کا تقرر اور وزیراعظم
Reading Time: 3 minutesسیدھی صاف پوزیشن یہ ہے کہ انٹیلیجنس بیورو کی طرح آئی ایس آئی بھی براہ راست وزیراعظم کو جواب دہ ہوتی ہے۔ اس لئے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کا اختیار بھی وزیراعظم کا ہے۔
جب محترمہ بینظیر بھٹو نے اسد درانی کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا تو بھی آرمی چیف اور سینئر جنرلز ان کی تقرری کے خلاف تھے۔ جب نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تو بھی آرمی چیف اور تین چار سینئر جنرلز ان کے خلاف تھے۔ لیکن اختیار وزیراعظم کا تھا انہوں نے استعمال کیا، تو کھلم کھلا مخالفت کی کسی کو جرات نہ ہوئی۔
مشرف کے سیاہ دور کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو وزرائے اعظم یہ جان چکے تھے کہ رسمی طور پہ بھلے جو بھی پوزیشن ہو عملاً آئی ایس آئی ان کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے۔ تو یوسف رضا گیلانی ہوں یا نواز شریف، جو نام آرمی چیف نے دیا، انہوں نے اس کی منظوری دے دی۔ عمران خان وزیراعظم کا یہ کھویا ہوا اختیار واپس لینا چاہ رہے ہیں۔
ایک قانونی نکتہ یہاں یہ بھی ہے کہ آرمی چیف اپنے محکمے میں تقرریوں اور تبادلوں کا ویسے ہی اختیار رکھتے ہیں جیسے کسی بھی دوسرے سرکاری محکمے کا سربراہ۔ اب اس حیثیت میں وہ جنرل فیض حمید کا بطور کور کمانڈر تقرر فرما سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ جنرل فیض آئی ایس آئی کے ڈی جی ہیں تو ان کیلئے وزیراعظم سے اجازت لینا بہتر تھا۔
پہلے جنرل فیض حمید کو عہدے سے ہٹائے جانے اور کور کمانڈر لگائے جانے کی خبریں لیک کی گئیں۔ اس کے بعد اسی طرح کور کمانڈر اجلاس کے بعد جنرل ندیم انجم کے ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تقرر کی خبریں چلوا دی گئیں۔ جب حکومت نے تردید کی تو آئی ایس پی آر نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
اب یہ آخری کام سراسر وزیراعظم پہ اپنا فیصلہ تھوپنے کے مترادف ہے۔ صرف فوج یا آئی ایس آئی ہی نہیں، ہر وفاقی محکمے کے سربراہ کی تقرری کی منظوری وزیراعظم دیتا ہے اور اس منظوری کا حوالہ دے کر اس کی تقرری کا نوٹیفیکیشن متعلقہ محکمہ جاری کرتا ہے۔ یہاں الٹی گنگا بہا کر اب اس ساری صورتحال کا ذمہ دار بھی وزیراعظم کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں اس معاملے پر وزیراعظم کے ساتھ کھڑا ہوں۔ "کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا.
وزیراعظم فیض حمید کو ایکسٹنشن دے، آصف غفور کو نیا ڈی جی لگائے یا کسی کالے کتے کو، یہ اس کا اختیار ہے اور صرف اس کا اختیار ہے۔
مریم نواز صاحبہ کا میں اتنا بڑا فین نہیں ہوں لیکن اس معاملے میں ان کی ہائی کورٹ میں پیشی اور اس کے بعد کی طوفانی پریس کانفرنس کی جتنی داد بھی دی جائے کم ہے۔ مطلب واؤ۔ یہ باکسنگ کی اصلاح میں اپر کٹ مارا انہوں نے۔ ایک اوپننگ دیکھی اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ سیم پیج کو لیرولیر کرنے کی تین سال میں پہلی شاندار کوشش ہے۔
خیر اب اس معاملے کا باعزت حل یہی ہے کہ جسے وزیراعظم کہتے ہیں اسے ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا جائے۔ لیکن اس سے جنرل باجوہ کی اپنے ادارے کے سامنے توقیر میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا۔
دوسرا باعزت حل یہ ہے کہ پی ایم ہاؤس جنرل ندیم انجم کی تقرری کی توثیق کر دے۔ اس سے وزیراعظم کی آلموسٹ نان ایگزسٹنٹ توقیر میں مزید کمی ہوگی اور ساتھ ہی نئے سپائی چیف کو ہینڈی کیپ لگ جائے گا کہ وہ وزیراعظم کے پسندیدہ نہیں ہیں۔
ہر دو صورتوں میں سیم پیج پہ کچھ سیاہی کے دھبے تو پڑ جائیں گے مگر یہ پھٹے گا نہیں۔ عوام کی تو خیر ہر صورت ….