کالم

جب میلبرن کے سینیما میں مولا جٹ دیکھی

اکتوبر 15, 2022 5 min

جب میلبرن کے سینیما میں مولا جٹ دیکھی

Reading Time: 5 minutes

میلبرن (آسٹریلیا) کے سینیما ہال سے۔
یار بھائیو! پلیز، خدا کے لیے، چند باتوں پر غور کرو، بہت ضروری ہے۔

نمبر ایک، ہر جگہ کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اگر خدا نے سنیما میں بھیج ہی دیا ہے تو پلیز زبان کو قابو رکھا کریں۔ سب خاموش ہیں، دو چار الو اپنی کمنٹری کر رہے ہیں۔ اور کمنٹری بھی کس قسم کی اس کے لیے التجا نمبر دو پر غور کریں۔

التجا نمبر دو، اگر آپ اردو سپیکر ہیں اور پنجاب یا پنجابی سے کسی بھی قسم کا جائز یا ناجائز بیر ہے تو خدا کو مانو اپنے پیٹ کی گرمی منہ کے ذریعے مجمع میں مت نکالا کرو۔ کمال کی مولا جٹ چل رہی ہے اور دو اردو سپیکر پیپسی کو پےپسی والے لہجے میں تبصرے فرما رہے ہیں۔

“یاررر کیا fuckery ہے وسیم بھائی”

“ابے یار پے سے ضائع کیے پنجابی مووی پر”

ٹکٹ خریدنے سے پہلے پتہ نہیں تھا پنجابی فلم ہے؟

(نوٹ: شور مچانا ہے تو مچا لیں مگر میں خود اردو سپیکر ہوں)

خیر اب آتے ہیں فلم دی لیجینڈ آف مولا جٹ پر۔ کہانی تو سبھی کو معلوم ہوگی لہذا اس پر بات کرنا میرا خیال ہے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔

اچھا اصل مولا جٹ میں نے جس زمانے میں دیکھی تھی اس وقت سمجھ لیں ہوش نہیں سنبھالا تھا لہذا کم از کم مجھے کہانی نہیں معلوم تھی۔ البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ “دارو نتنی” کے سر پہ پگ اصل مولا جٹ میں شاید نہ رکھی گئی ہو۔ لہذا کہانی کے فریم ورک میں رہتے جو تبدیلی ہو سکتی تھی وہ کی گئی۔ اگر یہ اصل کہانی میں بھی ایسا ہی تھا تو بہرحال داد دینی پڑے گی اس دور میں کہانی لکھنے والے کو۔

سب سے اہم خاصیت جس نے شدید ترین متاثر کیا اور جس کا اندازہ کسی حد تک ٹریلر سے ہو رہا تھا۔

‏Cinematics

بھائی کمال فلم بندی۔ یعنی کہ کمال۔ کوئی اینیمیشن کا ٹچ محسوس نہ ہوا۔ خوبصورت ڈرون شاٹس۔ دیہات کا ماحول اور کیا ہی مفصل ماحول۔ خوبصورت۔ سندر۔ اتی سندر۔ یاد رہے مولا جٹ آج کے دور میں ایک قسم کی folklore کا درجہ رکھتی ہے۔ یعنی کم از کم ہم بچپن سے سنتے آئے کہ سلطان راہی نے مولا جٹ کا کردار ادا کیا تھا، گنڈاسہ تھا، نوری نت تھا۔ فلم میں ہر چیز کا احاطہ باریک بینی سے کیا گیا ہے۔

ایک سوچ جو میرے ذہن میں آئی۔ فلم Punjab centric تھی یعنی “پورے پنجاب سے آج تک یہاں کوئی نہیں آیا” وغیرہ ٹائپ کے ڈائیلاگ۔
ایک جانب مجھے خوشی ہوئی کہ پنجابی کلچر کو اس طرح سے پروموٹ کیا گیا لیکن دوسری جانب کچھ افسوس ہوا۔

آپ فلم دیکھیں گے تو کئی مقامات پر آپ کو پنجاب سے زیادہ راجستھانی فیلنگ آئے گی۔ اس کی دو ممکنہ وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ممکن ہے ثقافتی ٹچ دینے کے لیے واقعتاً راجستھانی ٹچ دیا گیا ہو۔ تاہم میں اس ممکنہ وجہ پر خود تذبذب کا شکار ہوں۔ اس سے زیادہ مضبوط وجہ یہ لگتی ہے کہ سنیما میں ہم نے پنجابی کلچر کو دکھانا شاید چھوڑ دیا ہے۔

مطلب مجھے یاد نہیں پڑتا اس سے پہلے میں نے کوئی کوالٹی پاکستانی فلم ایسی دیکھی ہو جس میں پنجاب کا کلچر دکھایا گیا ہو۔ اور دراصل یہی وہ نکتہ ہے جس پر دکھ ہوا۔ سنیما کی بربادی اور کلچر کے عدم پر دکھ ہوا۔ شاید بلال لاشاری کی مولا جٹ اس کمی کو پورا کرنے یا revive کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔

شاید؟

اب آتے ہیں پنجابی لہجے پر۔ ہاں پرفیکٹ نہیں تھا مگر برا بھی نہیں تھا۔ کم از کم لال سنگھ چڈھا کی پنجابی کی نسبت بہت بہتر تھا۔ باقی ایک ایسے ملک میں جہاں لوکل فلم انڈسٹری نام کی کوئی چیز تقریباً معدوم ہو، بڑی کاسٹ کو لے کر پنجابی فلم کیسے بن سکتی ہے؟ لہذا عرض ہے، ایج دیجیے۔

ایک اعتراض فلم کے ڈائیلاگز کو لے کر اٹھا تھا کہ misogynist ڈائیلاگ ہیں۔ برادران و خواتین، گزشتہ روز میں Liam Neeson کی فلم Memory دیکھ رہا تھا۔ غالباً نئی فلم ہے۔ امیزون پرائم پر موجود ہے۔ اس میں ایک منظر کم سن غالباً ۱۳ برس کی لڑکی کو بطور سیکس ورکر دکھانے کا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ انسانی سمگلنگ میں ملوث لوگ ایسا کرتے ہیں۔ تو مولا جٹ میں جو دور دکھایا گیا ہے، برادران و خواتین، اس دور میں یہی کچھ چلتا تھا۔ فلم ہے، مولانا طارق جمیل کا خطبہ تو ہے نہیں (گو آج کل وہ بھی ملاوٹ والا آتا ہے)۔

ایک ایسے زمانے پر مبنی فلم ہے جب لڑائی مار کٹائی عام ہوتی تھی۔ ایک ایسا زمانہ دکھایا گیا ہے جہاں دشمنی پر لاشیں بچھ جایا کرتی تھیں۔ ایک ایسے دور پر مبنی فلم ہے جہاں بٹ اپنے رشتے بھٹیوں میں کرنے سے گریز کرتے تھے اور نت جٹوں میں (فلم کی حد تک)۔ تو اب فلم کی کہانی میں آج کے دور کی مناسبت سے یہ تمام حقائق بدل دیں کہ جنتا ناراض نہ ہو؟

کمال کرتے ہو پانڈے جی۔

اب آتے ہیں مولا جٹ کے کرداروں پر۔

حضرات! گوہر رشید، ماکھا نت۔ بھئی پوری فلم میں کردار کے ساتھ جس شخص نے سب سے زیادہ انصاف کیا وہ ہے گوہر رشید۔ مطلب کہانی کے حساب سے دیکھا جائے تو مولا جٹ یا نوری نت جتنا اہم تو نہیں تھا، لیکن گوہر رشید کی اداکاری آپ کو الگ سے چمکتی نظر آئے گی۔ منفی کردار، فل سائیکو ٹائپ جو الگ سے نظر آئے۔ سو بہترین اداکار مولا جٹ میں میری رائے میں تو گوہر رشید کا رہا۔

اس کے بعد گو اداکاری سے ہٹ کر بندہ مجھے بہت فضول لگتا ہے لیکن استاد فلم میں آواز، میک اپ، گیٹ اپ، ڈائیلاگ میں شدت۔۔۔ نوری نت۔۔۔ حمزہ علی عباسی۔۔۔ چھا گیا ایں! ایک بار پھر کہوں گا، حمزہ علی عباسی کی آواز جو میچ ہوئی ہے اس کے کردار کے ساتھ، بہت اعلی۔ اداکاری بھی کمال، مثلاً جیل میں جب نوری نت پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے وہ سین مجھے زبردست لگے، اس کے بعد جب نوری نت اپنے باپ کو مارتا ہے تب اور جب جیل میں دارو سے ملتا ہے تب۔

تیسرے نمبر پر جس کردار کے ساتھ نہ صرف انصاف ہوا بلکہ الگ سے نظر بھی آیا وہ رہا حمائمہ ملک بطور دارو۔ حمائمہ ملک کو میں نے پہلی بار سکرین پر دیکھا۔ ایک تو پنجابی مجھے کم از کم دوسروں کی نسبت بہتر لگی دوسرا دارو کا کردار بھی مضبوط بنایا گیا ہے۔ پھر اداکاری بھی اچھی سو پیکج پورا۔

باقی فواد خان ٹھیک ہے اچھا رہا لیکن ایسا کوئی ایکسٹرا آرڈنری نہیں۔ کئی جگہ پر فواد خان سے زیادہ اس کا گنڈاسہ سٹائلش محسوس ہوا۔ مطلب ایکس تھا بھئی گنڈا سے کا۔ سٹائل مولا جٹ سے کہیں بہتر نوری نت کا خوبصورت لگا۔ مطلب سینس آف فیشن یا ایستھیٹکس۔ حمزہ علی عباسی۔ ماہرہ خان کورم پورا کرنے کے لیے رہی۔ اس سے کہیں بہتر مجھے صائمہ بلوچ (رجو) لگی خاص کر فلم کے آغاز میں اور پھر کردار کی موت پر۔ لیکن یہ میری ذاتی پسند ہے۔ آپ چاہیں تو شفقت چیمہ کو پسند کر لیں۔ نو پرابلم۔

ایک بار پھر، کمال فلم۔ ختم ہوئی تو تالیاں بجیں۔ اور خوشی ہوئی۔ خاص کر باجو والے بھیے و ہمنوا کی شکلیں دیکھنے پر جو تالیاں بجنے پر حیران پریشان نظر آئے۔

امید بھی ہے اور دعا بھی کہ میلبرن سمیت دنیا بھر میں بڑی سکرین پر مزید پاکستانی فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ ایک بار پھر، مولا جٹ کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارک اور ڈھیر سارا شکریہ ایسی کمال تخلیق پر۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے