کالم

دست و خط

نومبر 13, 2022 5 min

دست و خط

Reading Time: 5 minutes

سول ملٹری دنگل میں جمہوریت کا کانگڑی پہلوان آمریت کے بھولو پہلوان کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا ہے، پورا سٹیڈیم تالیوں سے گونج اٹھا ہے مگر ایسا نہیں کہ کانگڑی پہلوان نے کوئی داؤ لگا کر بھولو پہلوان کو چاروں شانے چت کیا ہے۔ دراصل بھولو پہلوان کانگڑی پہلوان کو پچھلے مقابلے میں قواعد کے برخلاف لگائی پھینٹی پر پشیمان ہے اور کچھ کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ 22 کروڑ تماشائی اس کو یکطرفہ مقابلہ سمجھ کر مایوس نہ ہو جائیں۔

پاکستان میں ہر چند سال بعد آرمی چیف کی تعیناتی کے موقعے پر ہماری جمہوریت کو سویلین بالادستی کا لال غرارہ پہنا کر، آئین کی بالادستی کا گھونگھٹ ڈال کر سیاست کی سیج پر بیٹھا دیا جاتا ہے، مگر “دلہن ایک رات کی” یہ فلم چند کھڑکی توڑ ہفتوں کے بعد اچانک فلاپ ہو جاتی ہے، دلھن کو گھریلو ملازمہ کے رینک لگا دئیے جاتے ہیں۔

فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے ادوار جیسی اعلانیہ کنواری آمریت تو اپنے نفسِ اقتدار کی تسکین و توسیع کے لیے کسی وزیراعظم کے نہیں اپنے دست و خط سے ہی کام چلا لیتی تھی مگر کیا کیجیے کہ غیر اعلانیہ آمریت میں ایک وزیراعظم کے بھی محض دست و خط سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ بڑے سے بڑے بدمعاش کو بھی معاشرتی رکھ رکھاؤ میں شادی کا ڈرامہ رچانے واسطے محلے کے نکاح خواہاں اور دلھن کے دست و خط کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔

ایک بار پھر شامیانے لگے ہیں، دیگیں چڑھ چکی ہیں، برتنوں کی کھنکار اور تجزیاتی بھانڈوں کی جھنکار میں جمہوریت کا سیج سجایا جا رہا ہے مگر چار دن کی اس چاندنی کے بعد کیا ہو گا؟ کیا جمہوریت کی دلھن اپنے پیروں تلے وہ سیاسی جنت بنا پائے گی جس کے حصول کے لیے ہزاروں کارکنوں اور سیاسی لیڈروں نے اپنی جان کی قربانی دی ہے؟ کیا جمہوریت کے تمام آئینی و شرعی حقوقِ زوجیت ادا ہوں گے یا پھر آمریت کا شوہرِ بدنامدار اپنی خاندانی روایات کے مطابق ولیمے کے اگلے روز سے ہی کسی سیاسی رکھیل کی تلاش میں نکل کھڑا ہو گا؟

حالات کی ستم ظریفی کہیں یا مکافاتِ عمل جس نواز شریف کو کالے کوٹ سے چمکائے کالے بوٹوں والے ایمپائر نے انگلی کھڑی کر کے میدان سے باہر بھیجا تھا آج وہی نواز شریف باؤنڈری سے باہر بیٹھا نئے ایمپائر کی تعیناتی کا فیصلہ کر رہا ہے، اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ مگر بدنصیبی یہ ہے کہ یہ ایمپائر بے ایمانی سی باز نہیں آتے اور ہماری سیاسی قیادت اپنی روایتی بزدلی کے باعث سول ملٹری تعلقات کو آئینی ترتیب میں لانے کے بجائے اُن میں توازن ڈھونڈتی ہے یا طوطوں کی مانند ایک صفحے (سیم پیج) کی ماورا آئین مالا جپتی رہتی ہے۔

اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ سویلین بالادستی کا فقدان ہے سول ملٹری عدم توازن نہیں۔ اس کے باوجود سیاسی جماعتیں اور بار بار لات کھا کر اقتدار سے نکالے گئے بزدل سیاسی قائدین اس معاملے کو نہ تو اپنے سیاسی و انتخابی بیانیے کا حصہ بناتی ہیں اور نہ ہی اقتدار میں ہوتے ہوئے ٹھوس پالیسی ترتیب دیتی ہیں یا واضح اقدامات اٹھاتی ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کی مثال اس مظلوم خاتون کی سی ہے جو اچھی زندگی کی خاطر اپنے مجرم سے ہی نکاح کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس کے باوجود بھی ظلم کا شکار اور اس پر خاموش رہتی ہے۔

پچھلے سات سال میں ہمارے ملک اور اس کے نظام کے ساتھ جو سنگین کھیل کھیلا گیا اس سے ہماری سیاسی قیادت نے کیا سیکھا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ خود کو جتنا بھی نیوٹرل کہہ لے مگر اس کی لیباریٹری سے چھوڑے گئے وائرس نے ہماری ایک نسل کو جس طرح فکری طور پر تباہ کر دیا ہے اس کا ازالہ کون کرے گا۔ غیر جمہوری اور غیر آئینی سوچ کے ساتھ ساتھ شخصیت پرستی اور جنونیت کے جراثوموں کو پروان چڑھا کر اوراس جرم پر قوم سے برملا اور سر عام معافی مانگے بغیر رعونیت بھری اس نیوٹریلیٹی کا قوم نے اچار ڈالنا ہے؟ یہی وقت ھیکہ حکمران اتحاد روایتی مصلحت پسندی سے نکلے اور کم از کم اعلان کردہ “نیوٹریلیٹی” کے دعوے کو ٹھوس شکل دینے واسطے سیاسی اور انتخابی منشور کا واضح اعلان کرے۔

کیوں ممکن نہیں کہ نامزد نئے آرمی چیف سے آئین سے وفاداری اور سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا ایک بار پھر وہی حلف لیا جائے جو انہوں نے کمیشن کے وقت اٹھایا تھا؟ نئے آرمی چیف رضاکارانہ طور پر بھی ایسا کر سکتے ہیں وگرنہ اس کے لئیے حکومت کا ایک معمول کا ھدایت نامہ بھی کافی ہو گا۔ وزیر دفاع یہ حلف تین مسلح افواج کے سربراہان سے لے سکتے ہیں، اسکے علاوہ نئے آرمی چیف کو ٹی وی پر براہ راست دکھائے جانے والی سینٹ یا قومی اسمبلی کی دفاع سے متعلق قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سوالوں کے جوابات دینے کے لئیے بھی بلایا جا سکتا ہے، اسی طرح نئے آرمی چیف کی وزیر اعظم سے ملاقات میں وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع کو بھی موجود ہونا چاہیے، اس کے بعد نئے آرمی چیف کو وزیر دفاع سے انکے دفتر میں بھی ملاقات کرنا چاہیے، جس کے بعد وزیر دفاع چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کا اجلاس بلائیں اور اس کی صدارت کریں۔

ایسے ہی اجلاس میں تینوں افواج کے نمائندہ اداروں یعنی جوائنٹ چیف آف سٹاف، انٹر سروسز اینٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) میں منصفانہ اور متناسب نمائندگی کے لیے اہم پالیسی ترتیب دی جا سکتی ہے۔
مثلاً آئی ایس پی آر کا سربراہ وزرت دفاع کا کوئی سویلین اور اہل افسر تعینات کیا جا سکتا ہے جس جی متعلقہ افواج کے فوجی افسران معاونت کریں اور وہ وزارت دفاع کو جواب دہ ہوں۔ غرض یہ کہ وزارت سفاع کو با اختیار اور متحرک کیا جائے۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر جمہوریت بیچاری کا نیوٹریلیٹی سے حلالہ کروا کر واپس آمریت کے نکاح میں جانے سے مطلب؟

دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب سوچنے کی مشقیں شروع کر دینی چاہئیں کہ ملک کی آئینی حدود کا تعین جی ایچ کیو کے جنگی نقشوں یا آئی ایس پی آر کی ففتھ جنریشن وار کے زائچوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ علاج غم تقریروں یا پریس کانفرنسوں سے نہیں ہوتا، کیا وجہ ہے کہ ہمارے نمبر ون خفیہ اداروں کے پیروں فقیروں کو روایتی پردے سے باہر آ کر اپنی نیوٹریلیٹی کا اعلان اس انداز میں کرنا پڑا کہ “درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔” بات تب تھی کہ اپنے پراجیکٹ عمران خان کی ناکامی سے متعلق سوال پر “پھر کسی وقت سیر حاصل گفتگو” کی بجائے ہمارا کوئی ریٹائرڈ جیمز بانڈ ہی کچھ اعترافات کر لیتا۔ آئین میں مسلح افواج کے سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کے حلف کے پیچھے صدیوں پرانی حکمت ہے جس کو ہم لوگ ۷۵ سال سے نہیں سمجھ پا رہے اور اب بھی محض ادارے کی اندرونی کشمکش (ملکی یکجہتی نہیں) کے باعث مسجدوں سے نیوٹریلیٹی کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
اگر بطور ادارہ، بطور قوم، بطور حکومت اور بطور سیاستدان ہم سنجیدہ ہیں تو پھر مذکورہ تجویز کردہ ٹھوس اقدامات اٹھا کر ہم آئین سے وفاداری کا ثبوت دے سکتے ہیں وگرنہ پھر ووٹ کو عزت دینے اور نیوٹریلیٹی کے نعروں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جمہوریت کی منی بدنام ہوتی رہے گی اور آمریت کا مُنا چہرے بدل بدل کر آتا رہے گا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے