اہم خبریں متفرق خبریں

لاپتہ افراد کیس،وزیراعظم کی طلبی کے بعد بات ایس ایچ او تک پہنچ گئی

نومبر 14, 2022

لاپتہ افراد کیس،وزیراعظم کی طلبی کے بعد بات ایس ایچ او تک پہنچ گئی

اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کے کیس میں وزیراعظم کی طلبی کے بعد اب ایک ایس ایچ او کو طلب کیا گیا ہے۔دو ماہ قبل عدالت عالیہ کے سابق چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے وزیراعظم کو طلب کیا تھا جنہوں نے دو ماہ کی مہلت مانگی تھی۔

پیر کو دو ماہ کی مہلت ختم ہونے کے بعد ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس عامر فاروق نے مدثر نارو و دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلقہ کیسز پر سماعت کی۔ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کے کیسز کو ڈویژن بنچ کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

ایک کیس میں لاپتہ نوجوانوں کے والد نے بتایا کہ اسلامک یونیورسٹی کے باہر سے میرے دو بیٹے لاپتہ ہوئے ابھی تک کچھ پتہ نہیں چلا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی اس معاملے کو دیکھ رہی تھی، اعظم نذیر تارڑ کے بعد وہ کمیٹی فعال نہیں رہی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پوزیشن پاور سب چھوڑ دیں انسان بن کر سوچیں کہ کسی کا بھائی بیٹا نا ملے تو کیا ہوتا ہے ؟ ملک کے مفاد میں ہے کہ یہ مسئلے حل ہو جائیں ، ہمارا اپنا کوئی لاپتہ ہو جائے تو ہم خود کیسا محسوس کرینگے؟ وکیل، جج یا آئی جی بعد میں، ہم انسان تو پہلے ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے تفتیشی افسر تھانہ سبزی منڈی پر شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ تفتیش کے اہل ہیں؟ جو دو پھول لگائے ہیں اسکے اہل ہیں؟۔

عدالت نے ایس ایچ او تھانہ سبزی منڈی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

لاپتہ افراد کے ورثا کے ورثا دو ماہ کی مہلت ختم ہونے کے بعد کسی اہم فیصلے کی توقع کر رہے تھے۔

لاپتہ مدثر نارو کی وکیل ایمان حاضر مزاری کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی فیصلوں کی توہین کی جا رہی ہے،اگر وزیراعظم بے بس ہے تو انہیں اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ مشرف سے لے کر آج تک کے چیف ایگزیکٹو کے خلاف لاپتہ افراد کیس میں آرٹیکل سکس کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔

ایڈووکیٹ کرنل(ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ ابھی تک دور آمریت کی پالیسی چل رہی ہے، اس پالیسی پر نظر ثانی کی جانی چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں کہتے کہ کسی کو رہا کریں،ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کارروائی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ آخری لاپتہ فرد کی بازیابی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے