کالم

را کے ایجنٹ اور مقبوضہ وادی کے صحافی

فروری 13, 2023 2 min

را کے ایجنٹ اور مقبوضہ وادی کے صحافی

Reading Time: 2 minutes

کہتے ہیں جب سیسلین مافیا نے اپنے دھندے میں خوب مقام بنا لیا تو اس نے ہر شعبے میں اپنا اثر و رسوخ شروع کر دیا ، حتی کہ ججز کی تعیناتیوں سے لے کر صدارتی امیدواروں کی سلیکشن تک سب مافیا نے اپنے قابو میں کر لیا اور یوں سب کی زباں بندی کر دی گئی۔

زباں بندی اگرچہ مفادات کے چکر میں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے برابر قابل نفرت ہے لیکن اگر شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ایسا گند کر بیٹھیں تو بس پھر سمجھیں بیڑے پار ہو گئے۔

چند روز قبل جیو نیوز اسلام آباد سے وابستہ ہمارے صحافی دوست حیدر شیرازی نے وزیر اعظم کشمیر سے ایک عام سا سوال پوچھا جس کے جواب میں ان پر ہندوستانی خفیہ ایجنسی را سے پیسے لینے کا الزام تھوپ دیا گیا اور صاحب بہادر یہیں تک رکے نہیں بلکہ رات کو فون کر کے نہ صرف حیدر شیرازی کو دھمکایا گیا بلکہ ایسی گندی اور غلیظ گالیاں دی گئیں جو کہ شاید کوئی گلی محلے کا لوفر بھی دینے سے پہلے ہزار بار سوچے۔ لیکن اصل میں سیسلین مافیا طرز کی کارروائی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔

اگلے روز اسلام آباد پریس کلب سمیت تمام صحافتی تنظیموں کو چپ کا روزہ لگا ہوتا ہے اور کوئی بھی جرات نہیں کرتا کہ ایک پریس ریلیز ہی جاری کر دی جائے یا پھر کوئی مذمت ہی کر دیں ، جو ہوا وہ سن کر آپ حیران ضرور ہو جائیں گے کیونکہ شہر میں جس جس صحافی نے اس واقعے پر آواز اٹھانے کی کوشش کی اس کی ہائیر مینیجمنٹ کو اپروچ کیا گیا اور یوں ڈائریکٹر نیوز صاحبان نے فوری طور پر سوشل میڈیا سے پوسٹیں ڈیلیٹ کروا دیں کہ جناب ہمارے دوست ہیں تو ہم یہ گستاخی نہیں کر سکتے۔

عمران خان ، نواز شریف ، آصف زرداری اور فوجی سربراہان کو سرعام ننگا کرنے والے جغادری صحافی ایک چھوٹے اور کند ذہن شخص سردار تنویر کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔

مجھے خوشی ہوتی یہ صحافی حضرات کسی اصولی موقف پر ان کا ساتھ دیتے لیکن یہ ساتھ تو سینٹورس مال کے مالک سیٹھ کا دیا جا رہا ہے جس نے سب کو ان کی اوقات کے مطابق ہڈی ڈال کر چپ کروایا ہوا ہے، کسی کو ٹاپ فلور پر فلیٹ تو کسی کو اور بہت کچھ.

اور جیو نیوز کے علاوہ مین سٹریم میڈیا تو دور کی بات اب سوشل میڈیا پر پوسٹ تک لگانے پر قدغن لگا دی گئی ہے۔
اس سے قبل جی این این کے ایک صحافی دوست نے کچھ پوسٹیں کیں تھیں جس پر انہیں چینل کی ہائیر مینیجمنٹ کی طرف سے فوری چپ کروا دیا گیا تھا۔
صحافیوں کے حقوق کی تنظیمیں مفادات کا کمبل اور عینک لگا کے انجان بن چکی ہیں۔
فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کو چپ کروا دیا جاتا ہے۔ بہر حال اس معاملے پر قانونی کاروائی تو لازمی ہونی چاہیے لیکن آخر میں سردار تنویر الیاس کو ایک مشورہ بھی دے رہا ہوں کہ جناب ایسے صحافیوں سے بچیں. یہ صرف مفادات کے پجاری ہیں ، یہ سینٹورس کو پوجنے والی وہ مخلوق ہے جو صرف اور صرف اپنے مفادات سے مخلص ہے ۔ آپ ایسے کام ہی نہ کریں کہ ایسے لوگوں کو ہائر کرنا پڑے۔

امید کرتا ہوں پاکستان کی صحافتی تنظیمیں مجھے اس بار تو غلط ثابت کرتے ہوئے احتجاج کا اعلان اور قانونی کارروائی کے لیے حیدر شیرازی کا ساتھ دیں گی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے