اہم خبریں متفرق خبریں

جسٹس جمال مندوخیل کے سوالات پر چیف جسٹس نے کیا کہا؟

مارچ 28, 2023 3 min

جسٹس جمال مندوخیل کے سوالات پر چیف جسٹس نے کیا کہا؟

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ صدر کی جانب سے مقرر کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن کیسے منسوخ کر سکتا ہے؟

منگل کو دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ آگے بڑھانے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت میں سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کا یکم مارچ کو دیا گیا فیصلہ کیا اب بھی موجود ہے؟ کیونکہ دو ججز نے تفصیلی وجوہات میں کہا ہے کہ تین کے مقابلے میں چار ججز نے سوموٹو کیس خارج کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو یہ عمل درآمد کا معاملہ ہے، یہ اب الگ مقدمہ ہے۔ اُس فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ صدر نے تاریخ دے دی تھی اب اُس تاریخ کو منسوخ کیے جانے کا معاملہ دیکھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار کہاں سے ملا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب دو ججز نے رائے دے دی کہ چار ججز کا فیصلہ ہے تو پھر اس طرح کا کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہی نہیں۔ اس لیے یہ سوال ہی نہیں کہ صدر الیکشن کرانے کی تاریخ دیتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون نے صدر کو یہ اختیار دیا اور عدالتی فیصلے پر عمل ہو گیا۔ اب یہ درست جگہ نہیں یہ بات کرنے کے لیے، اس کے لیے الگ مقدمہ دائر کریں۔ یہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا نہیں بلکہ دی گئی تاریخ منسوخ کیے جانے کا مقدمہ ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کی تاریخ دینے کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں، یہ آئین کے مطابق نہیں، اور ہوا میں مفروضے کی بنیاد پر الیکشن کی تاریخ دینا غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی جو الیکشن کمیشن نے تاریخ دی، یہ اسمبلی اور وزیراعظم کو کیسے ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں کہ کب الیکشن ہوں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ مقدمے کی بنیاد یہی ہے جہاں سے معاملہ ادھر پہنچا اس لیے عدالت سوال کو دیکھے اور ججز کے فیصلے کے بارے میں واضح بات سامنے آنی چاہیے۔ اس ساری کارروائی کی بنیاد اسی پر ہے کہ کیا صدر کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس ایشو کو نہ لائیں وگرنہ یہ معاملہ بھی تاخیر کا شکار ہوگا۔ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا معاملہ طے ہو چکا۔ اس کارروائی سے تعلق نہیں۔ آپ غلط سٹارٹ لے رہے ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ تشریف رکھیں، فیصلے پر عمل ہو گیا، ہم نے نیا سوال اٹھایا ہے کہ کیا صدر کی دی گئی الیکشن کی تاریخ کو منسوخ کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے آرڈر کو دیکھیں۔ اس مرحلے پر فیصلے کے ارکان ججز کی بات کی اہمیت نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس کے قابل سماعت ہونے کا سوال بھی موجود ہے اور یہ معاملہ بھی طے کیا جانا ہے۔ اس کے لیے سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مشتمل فُل کورٹ تشکیل دیا جائے تاکہ اجتماعی دانش سامنے آ سکے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ دو سوالات ہیں۔ ایک یہ کہ:
وہ کون سی اتھارٹی ہے جس کے پاس الیکشن کمیشن جائے کہ تاریخ آگے بڑھانی ہے۔
اور اس کے لیے دی گئی وجوہات کون کیسے متعین کرے گا؟

چیف جسٹس نے ان سوالات پر کہا کہ وہ اپنے دوست جج کے شکر گزار ہیں۔ یہ نہایت اہم سوالات ہیں جو اٹھائے گئے۔

جسٹس امین الدین نے تحریک انصاف کے وکیل سے پوچھا کہ آپ جن درخواست گزاروں کی جانب سے ہیں اُن میں ایک سابق سپیکر ہیں، یہ بتائیں کہ وہ کیسے متاثرہ فریق ہیں؟ سپیکر تو غیرجانبدار ہوتے ہیں وہ کسی سیاسی جماعت کی آواز میں آواز کیسے ملا سکتے ہیں؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ وہ آگے چل کر اس سوال کا جواب دیں گے۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے