شہری کی غیرقانونی حراست، ضلعی جج کا فوجی اہلکاروں پر مقدمہ درج کرنے کا حکم
Reading Time: 2 minutesخیبر پختونخوا کے ایک ضلعی جج نے لاپتہ کیے شہری کو بازیاب نہ کرانے پر فوجی اور مقامی سکاؤٹ اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
پشاور سے ملحق ضلع خیبر میں فوج اور مقامی سکاؤٹس کی ایک چیک پوسٹ پر شہری جمشید خان کو روک کر حراست میں لیا گیا تھا۔
رہا نہ کیے جانے پر شہری کے بھائی راشد خان قوم جانی خیل نے مقامی عدالت سے رجوع کیا۔
راشد خان نے اپنے وکیل کے ذریعے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ضلع خیبر ہدایت اللہ خان کی عدالت کو بتایا کہ 19 جولائی کو اُن کے بھائی اپنی سوزوکی وین میں تختہ بیگ کے علاقے کی جے سی پی چیک پوسٹ سے گزر رہے تھے جب اُن کو حراست میں لیا گیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ موقع پر موجود ایک رشتہ دار نے جب سکیورٹی اہلکاروں سے دریافت کیا تو جواب دیا گیا کہ جمشید خان سے پوچھ گچھ کرنی ہے چھوڑ دیا جائے گا۔
درخواست گزار کے مطابق عینی شاہد نے اس کے بعد تختہ بیگ کے مقامی تھانے کو بھی واقعے سے آگاہ کیا مگر حراست میں لیے گئے جمشید خان کو قانون کے مطابق کسی عدالت میں پیش نہ کیا گیا۔
اس مقدمے میں جے سی پی چیک پوسٹ تختہ بیگ جمرود کے محسود سکاؤٹ کے انچارج، جمرود میں فوج کی فرنٹیئر کوت کے کمانڈنٹ، تختہ بیگ پولیس چوکی کے انچارج، جمرود تھانے کے ایس ایچ او، ضلع خیبر کے ڈی پی او کے ساتھ سی ڈی ٹی پولیس سٹیشن جمرود کے انچارج کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
عدالت نے لکھا کہ اس کیس میں ضلع خیبر کے ڈی پی او کو نوٹس جاری کر کے زیرحراست شہری کو بازیاب کرانے کے لیے کہا گیا مگر وہ کوشش نہ کر سکے۔
دیگر حکام بھی بار بار کی عدالتی ہدایات کے باوجود شہری کو پیش کرنے میں ناکام رہے۔
عدالت نے دلائل سنے اور ریکارڈ کو دیکھا۔
عدالت کے مطابق اس مقدمے میں کمانڈنٹ اور دیگر کے خلاف شہری کو غیرقانونی حراست میں رکھنے کا براہ راست الزام ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حکام کو متعدد مواقع دیے گئے کہ وہ حراست میں لیے گئے شہری کے حوالے سے مطمئن کریں مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ اور ایسا نظر آیا کہ ریاست کے بعض حکام قانون کے مطابق جوابدہ نہیں سمجھتے۔
عدالت کو یہ تاثر بھی ملا کہ ریاست کے بعض محکمے مقدس گائے ہیں۔ زندگی اور آزادی بنیادی آئینی حقوق ہیں جن کی نفی نہیں کی جا سکتی۔
جج کے فیصلے کے مطابق قروزانہ کی بنیاد پر بنیادی حقوق کی پامالی سے عوام کا عدالتوں اور نظام انصاف سے اعتماد اُٹھ ہو رہا ہے۔
آرڈر میں لکھا گیا کہ ایک طرف غیرقانونی طور پر حراست کا براہ راست الزام اغوا ہے اور دوسری جانب متعلقہ حکام اس کی تردید کے لیے عدالت آنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
یہ الزامات اغوا، غیرقانونی حراست اور حقائق کو چھپانے کا جرم ثابت کرنے جیسے ہیں۔
یہ جرم دن کی روشنی میں کیا گیا جس کا براہ راست ایک عینی شاہد موجود ہے اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے قابلِ سزا ہے۔
عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے ضلع خیبر کے ڈی پی او، جمرود پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او کو حکم دیتی ہے کہ متعلقہ حکام اور چیک پوسٹ پر موجود عملے کے خلاف مقدمہ درج کرے اور شہری کو بازیاب کرائے۔