شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر
Reading Time: 2 minutesہمیں نہیں معلوم کہ برصغیر کے علاوہ ذات کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ برصغیر میں ذات پات کے نظام کی وجہ سے صدیوں سے نسل کی بنیاد پر برتری یا کم تری کا تصور اتنا راسخ ہوچکا ہے کہ یہاں پر ان تصورات کو چیلنج کرنا ناممکن نہ بھی ہوتو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
مرشد نے بتایا تھا کہ ابوجہل کہتا تھا کہ بنوہاشم سے ہماری سرداری اور چودھراہٹ کی مسابقت تھی جس میں مادی یا دنیاوی طور پر ہم ان سے آگے تھے۔ لیکن اب ان کے بڑائی کے دعوے میں مذہبی یا خدائی عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔
ہاں تو ہم کہہ یہ رہے تھے کہ ہمارے ناقص علم کے مطابق کسی نسل کے برتر یا کم تر ہونے کا قانونی، شرعی یا سائنسی جواز شاید ہی آپ کو ملے لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی ذات پات کی روایت کے زیر اثر پاکستان میں بھی یہ تصور انتہائی راسخ ہے۔ شجرہ درست ہو یا نہ ہو،اس سے اہم سوال یہ ہے کہ شجرے کی اہمیت کیا ہے؟ اس کی بنیاد پر کیا طے یا ثابت کرنا مقصود ہے؟
شیعہ دوستوں کا بنو امیہ پر ایک بنیادی اعتراض یہ ہے کہ انھوں نے خلافت کو میرٹ کی بجائے موروثی بنا دیا۔ خود خلافت کے ساتھ ساتھ امامت کو بھی موروثی قرار دیا۔
ہاں تو شجروں کی بحث برصغیر سے باہر کتنی اہمیت رکھتی ہے اس سلسلے میں ہمارا علم انتہائی محدود ہے۔
کوئی شخص خود کو کس خاندان یا نسل سے منسوب کرتا ہے اس سے کسی دوسرے شخص کو فرق نہیں پڑنا چاہئے۔ لیکن جو لوگ نسلی امتیاز کے نام پر جبر یا استحصال کا نشانہ بنے ہیں یا بنتے ہیں ان کے لیے یہ سوال غیرمتعلق نہیں ہوتا ۔ جس کی وجہ سے “برتر” یا “مقدس” نسلوں یا اس کے جواز وغیرہ کے بارے میں بعض دفعہ لہجوں میں تلخی آ جاتی ہے۔
آخر میں ایک جانگلی لطیفہ سنیے۔
چودھری صاحب نے میراثی سے پوچھا کہ ہم تم کمیوں کی نسبت خوش حال ہیں لیکن ہمارے بچوں کے مقابلے میں آپ کے بچے زیادہ تروتازہ کیوں نظر آتے ہیں۔
میراثی نے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا مائی باپ ہم آپ کی رعایا ہیں۔ ہمارے خواتین و حضرات آپ کے حضرات و خواتین کے نوکر اور خادم ہیں۔ اس لیے ہم آپ میں امتیاز ختم ہوجاتا ہے۔کئی دفعہ آپ کی خوشحالی کا اثر ہمارے بچوں میں نظر ہے اور کئی دفعہ اس کے برعکس۔
شجرے کی سب سے موثر اور قابل فہم بنیاد سنا ہے نادر شاہ نے بتائی تھی: شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر