قطاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیں
Reading Time: 3 minutesجہاں دنیا جرمنوں کی گرویدہ ہے۔ وہاں کچھ قباحتیں ایسی ہیں کہ جن سے سرف نظر نہیں کیا جا سکتا.
جرمنی کے دو صوبوں میں اتوار کو الیکشن ہوئے جن میں سے ایک صوبہ باواریا جو رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔
جی وہی صوبہ جس نے محبوب گاڑی بی ایم ڈبلیو کو بی عطا کیا ہے۔ بات ہو رہی تھی انتخابات کی۔ باواریا میں ایک صوبائی اسمبلی ہے اس کے علاوہ انتظامی امور کے لئے 8 ڈویژنل اسمبلیاں ہیں۔
بندہ اس وقت ان ڈویژنز میں سے سب سے بڑی باواریا بالائی میں موجود ہے۔ ویسے تو اس صوبے میں ستر سال سے ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے۔ بس کبھی کبھی دودھ کے اوپر بالائی کے طور پر کسی ایک پارٹی کو مالش مساج کے لئے ساتھ رکھ لیتے ہیں۔ اس اعتبار سے آج کا دن انتخابی مشق کم اور الیکشن پکنک زیادہ ہے۔
چند روز پہلے ایک دوست کے گھر موجود تھا کہ جس کے والد نے پوسٹل بیلٹ کے پاؤ بھر کے چار بیلٹ پیپر گھر منگوائے تھے۔ دو بیلٹ پارٹی ووٹ کے اور دو بیلٹ شخصی ووٹ کے۔
شخصی بیلٹ پیپر ویسے تو صرف اپنے کسی محبوب کو اسمبلی میں براجمان دیکھنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کیونکہ اسمبلی کی سیٹیں پارٹی ووٹ کے تناسب سے ہی طے ہوتی ہیں۔
ویسے تو لوگ جرمن ووٹنگ سسٹم کی بیکار مشق پر بلا مبالغہ اس سے بھی بیکار کام پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔ اس لئے پڑھنے والوں کو سمجھ نہ آئے تو دو چار مرتبہ پڑھ لیں اس سے آسان لکھنا بندے کے لیے ممکن نہیں۔
اصل جو بات بتانے والی ہے کہ باواریا بالا کا شخصی انتخاب کا بیلٹ ایک 70 انچ ٹیلیویژن سکرین کے برابر ہے اس لئے پاؤ بھر ووٹ والی بات میں کوئی مبالغہ نہیں۔ اس بیلٹ پیپر پر ایک محتاط اندازے سے 350 کے قریب افراد کا نام لکھا ہے اور اس سے بڑا لطیفہ اس بیلٹ پیپر کے اوپر بالائی کونے میں جلی حروف میں لکھا ہے, آپ کے پاس صرف ایک ووٹ ہے, اس لئے صرف ایک خانے میں کراس لگائیں۔
سونے پر سہاگا کے لئے ایک 85 سالہ بوڑھی اماں کو تصور میں لائیں جس کے پاس زندگی کے چند مشغلوں میں سے دن گن کر انتخاب کے دن کا انتظار کرنا، لائن میں لگ کر بیلٹ پیپر حاصل کرنا ان میں سے ایک میں 70 انچ والے بیلٹ کے نام پڑھ کے "اِنی مِنی مَینا مو” کر کے ایک نام کے آگے نشان لگانا، کسی آرکیٹیکٹ کی طرح ووٹ کو تہہ کرکے ڈرم جتنے بڑے ڈبے میں ڈالنا۔ یاد رکھیں کہ ووٹ کے عمل میں سہولت کاری قانوناً تقریباً ممنوع ہے۔
آخر میں جرمنوں کی قانون پسندی پر بھی ایک لطیفہ پڑھ لیجئے۔ کیونکہ جرمن شائد چاپانیوں کے بعد سب سے زیادہ قانون کو پوجنے والے ہیں۔ قانون ابھی پاس نہیں ہوا ہوتا اور یہ قانون کی جنگی بنیادوں پر مشقیں شروع کر دیتے ہیں۔
ایک جرمن بادشاہ نے کوئی دو سو سال پہلے اپنے وزیر سے پوچھا "کیا عوام مجھ سے مطمئن ہیں” وزیر نے باقاعدہ سروے کروایا اور اپنے دل کی بات نہیں بتائی کہ کہیں غیر ممکنہ غلطی نہ ہو جائے۔ رپورٹ کیا کہ عوام صرف آپ کے ہی گن گاتے ہیں۔ بادشاہ کو کانوں پر یقین نہ آیا اور زیادہ ٹیکس لگا کر وہی مشق دوبارہ کروائی۔ نتائج میں کوئی تبدیلی نہ پا کر راہداریوں پر ٹول لگا دیے۔ خزانے بھرنے لگے لیکن عوام کا ایمان افروز تعظیمِ پادشاہی متزلزل نہ ہوا۔ تنگ آ کر بادشاہ نے کہا کہ اب سے راہداری ادا کرنے والے سر پر ایک جوتا بھی کھائیں گے۔ چند روز بعد عوام کا ایک نمائندہ فریادی بن کر دربار میں التجا لے کر آیا۔ تو بادشاہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ آج تو وہ اس عوام میں شکایت کا عنصر دیکھ کر رہے گا۔
فریادی بولا جوتے کھانے والی قطار میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے، اس لئے ہمارے التجاء ہے کہ ٹیکس چاہے مزید بڑھا دیں۔ لیکن جوتے کھانے والی
قطاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیں