اہم خبریں متفرق خبریں

بحریہ ٹاؤن کراچی کا مقدمہ، ملک ریاض کا سپریم کورٹ کو رقم ادا کرنے سے انکار

اکتوبر 18, 2023 3 min

بحریہ ٹاؤن کراچی کا مقدمہ، ملک ریاض کا سپریم کورٹ کو رقم ادا کرنے سے انکار

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ماضی میں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد بینچز بنانے پر سوال اُٹھایا ہے۔

بدھ کو عدالت عظمیٰ میں بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت چیف جسٹس کی سرابراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ سے پوچھا کہ قانون میں عملدرآمد بینچ کا کوئی تصور ہے؟

انہوں نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے ججز ساتھی ججز کو اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کا حکم دے سکتے ہیں؟ فیصلے پر عمل نہ کرا سکے تو ساتھی ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی؟

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کراچی کی زمین کی قیمت کم کرنے کی متفرق درخواست کی جانب عدالت کی توجہ دلائی تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔

وکیل نے کہا کہ عملدرآمد بینچ کی جانب سے اراضی کی قیمت کا تعین کرنا غیرآئینی ہے۔

خیال رہے کہ ماضی میں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد بینچز بنا کر سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو سزائیں سُنائی گئیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے دوران سماعت خود رضاکارانہ طور پر تسلیم کیا وہ ادائیگی کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم سے توہینِ عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں، سپریم کورٹ جو احکامات دے چکی ہم اس پر نظرثانی کرنے کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے کبھی فیصلے پر نظرثانی بھی دائر نہیں کی۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ جب ہمیں مکمل زمین ہی نہیں دی گئی تو ہم رقم کیسے دے دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا کیس تو یہ ہونا چاہیے کہ درخواستیں غیر موثر ہو چکیں، سپریم کورٹ نے اقساط میں ادائیگی کا فیصلہ باہمی رضامندی سے دیا۔

وکیل نے کہا کہ اگر دوسرا فریق اپنے معاہدے پر عمل نہیں کر رہا تو ہم اپنے حصے والے معاہدے پر عمل کیوں کریں، یکطرفہ عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔

سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کیس میں 190ملین پاؤنڈ کا تذکرہ بھی ہوا.

چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں چھپتا رہا حکومت پاکستان کو بیرون ملک سے جو پیسہ ملا وہ اس نے بحریہ ٹاؤن کو دے دیا.

وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ مجھے اس بارے نوٹس کر دیں میں جواب دے دیتا ہوں، کسی نے معاہدہ نہیں دیکھا اس لیے ایسا کہا جا رہا ہے.

چیف جسٹس ںے کہا کہ معاہدے کی نہیں بلکہ اخباری خبروں کی بات کر رہا ہوں، ہم خود پوچھ لیتے ہیں.اصل صورتحال بتائیں پراجیکٹ بن گیا ہے یا بن رہا ہے.

وکیل بحریہ ٹاؤن نے بتایا کہ پراجیکٹ ابھی بن رہا ہے، لوگ رہ رہے ہیں، 55فیصد بحریہ ٹاؤن کراچی کا پراجیکٹ بن چکا ہے.

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ بحریہ نے جو سرمایہ کاری کی کیا ایف بی آر نے اس کا آڈٹ کیا؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی نے منصوبے میں کتنا سرمایہ لگایا؟
بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے بتایا کہ وہ مکمل تفصیلات فراہم کریں گے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ منظور شدہ لے آؤٹ پلان کدھر ہے، کیا بغیر لے آؤٹ پلان کے ہی منصوبے کا آغاز کر دیا گیا؟

چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے کہا کہ عدالت کے سامنے اس کھڑے ہو کر اس طرح رونا دھونا اور دکھڑے سنانا بند کریں۔

چیف جسٹس نے وکیل سلمان بٹ سے کہا کہ وہ پر سوال کا جواب دے رہے ہیں کہ میں بعد میں بتاؤں گا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے پوچھا کہ اُن کے مؤکل ملک ریاض کدھر ہیں، بحریہ ٹاؤن کی یہاں نمائندگی ہونی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ کراچی میں عمارات کی تعمیر سے قبل کیا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے اجازت لی گئی، تھانہ کلچر اور پٹواری کلچر کو ختم کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت ایک مختارکار کے خط پر نہیں بیٹھ سکتی، بحریہ ٹاؤن کی اتنی بڑی قانونی ٹیم بیٹھی ہے لیکن کسی کو کچھ علم نہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی عدالت سول یعنی دیوانی معاملے کو دیکھ رہی ہے، کرمنل یعنی فوجداری سائیڈ کو بعد میں دیکھیں گے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے اقساط ادا نہ کرکے عدالت کو لاعلم رکھا، بحریہ ٹاؤن کو رقوم کہاں سے ملیں،کچھ رقوم شیئر ھولڈرز کی بھی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کراچی کے نسلہ ٹاور کے عدالتی فیصلے کے ذریعے انہدام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے علاوہ اور کتنی جھونپڑیاں گرائی گئیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے