ڈیفنس کار حادثے میں چھ ہلاکتوں کا مقدمہ، ملزم انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش
Reading Time: 2 minutesلاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈیفنس کار حادثے میں ایک ہی فیملی کے چھ افراد کو ہلاک کرنے کے مقدمے میں کم عمر ملزم افنان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا ہے۔
پولیس نے جیل بھیجنے کے بعد ملزم افنان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت سے رجوع کیا گیا۔
کم عمر ملزم کو سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا۔
انسداد دہشتگری کی خصوصی عدالت کو پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم افنان شفقت کے خلاف مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل کی ہیں۔
پولیس افسر نے استدعا کی کہ ملزم سے تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
جج نے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے جوڈیشل مجسٹریٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا تھا۔
مدعی کے وکیل نے بتایا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو تفتیشی افسر نے ریمانڈ مانگا ہی نہیں۔
وکیل نے کہا کہ ملزم سے ابھی کچھ ریکور نہیں ہوا، عدالت تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ تفتیشی افسر کو ریمانڈ کیوں درکار ہے؟
ملزم افنان کے وکیل نے کہا کہ فئیر ٹرائل ہر شہری کا حق ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ حادثہ ہوا ہے جو افسوسناک ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ جن گاڑیوں کے درمیان حادثہ ہوا وہ پولیس کے پاس ہیں۔
ملزم کے وکیل نے بتایا کہ حادثے کے بعد افنان شفقت کو تین روز تک غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ واقعہ ملزم کی لاپرواہی سے ہوا۔
وکیل نے بتایا کہ ملزم کی عمر سترہ برس ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے پوچھا کہ یہ ملزم افنان شفقت ہے کون، ذرا سامنے کریں۔
وکیل نے کہا کہ ملزم کے خلاف جو دفعات بنتی ہیں وہ لگائی جائیں، ملزم کا ٹرائل جیونائل کورٹ کے تحت ہوسکتا ہے۔
دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشتگری کی خصوصی عدالت نے ملزم افنان شفقت کو پانچ روزہ جسمانی پر پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
پولیس نے ابتدائی طور معاملے کو تیز رفتاری کے باعث حادثہ قرار دیا تھا تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ کم عمر ملزم باقاعدہ حادثے کا شکار ہونے والی خاندان کی کار تعاقب کر کے ہراساں کر رہا تھا۔
جس کے لاہور پولیس نے قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات بھی مقدمے میں شامل کیں۔
لاہور کے علاقے ڈیفنس میں گاڑی کی ٹکرسے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت کے بعد عدالت نے لائسنس کے بغیر گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو فوراً گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
جمعے کو لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ملزم کی درخواست پر سماعت کی اور دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کیا۔