فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل، جسٹس سردار طارق اور وکلا میں جھڑپ
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
بدھ کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیل کی ابتدائی سماعت کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا۔
چھ رکنی عدالتی بینچ کے پانچ ججز نے اکثریت سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کیا جس کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پانچ ججز سے اختلاف کیا۔
سماعت کے آغاز پر تحریک انصاف سابق چیئرمین عمران خان کے وکلا لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن اور جسٹس سردار طارق مسعود میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا.
بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکلا پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔
لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن نےجارحانہ انداز اپنایا تو عدالت میں بیٹھے ہر شخص نے یہ محسوس کیا۔
پی ٹی آئی کے وکلا کے رویے کو دیکھتے ہوئے نرم گفتار اور ملنسار رہنے والے اٹارنی جنرل عثمان عثمان نے بھی جارحانہ انداز میں بات شروع کی اور جواب دیا۔
ایک موقع پر تحریک انصاف کے وکلا آپس میں ایک دوسرے کی جانب مڑ گئے اور اعتزاز احسن نےدو بار وکیل سلمان اکرم راجہ کو ڈانٹنے کے انداز میں خاموش کرانے کی کوشش کر کے خود بولنا شروع کیا۔
وکلانے بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود پر اعتراض کیا تاہم انہوں نے تحفظات مسترد کرتے ہوئے بینچ سے الگ ہونے سے انکار کیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اعتراض کرنے والے وکلا سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا اس حوالے سے فیصلہ پڑھ لیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ جج کی مرضی ہے کہ بینچ کا حصہ رہے یا مقدمہ سننے سے معذرت کرے۔
وکیل فیصل صدیقی نے اعتراض کیا کہ حکومت نجی طور پر وکلا کی خدمات حاصل نہیں کر سکتی، اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہی وزارتوں اور حکام کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔